84532 | طلاق کے احکام | تحریری طلاق دینے کا بیان |
سوال
مسئلہ موبائل کے میسج سے متعلق ہے،جس کی وجہ سے معاشرے میں فساد برپا ہے،کوئی بھی شخص دوسرے کے موبائل سے میسج کرکے شرارت سے موبائل والے کی زوجہ کو طلاق کا میسج بھیج سکتا ہے،ایسے واقعات رونما ہوئے ہیں،بعض علماء کرام بغیر تحقیق کے طلاق کا فتوی دے دیتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ زاہد کے موبائل سے اس کی زوجہ کو میسج کیا جاتا ہے کہ میں تمہیں اور تمہارے گھر والوں کی وجہ سے طلاق دے رہا ہوں،بس تم فلاں کی بیٹی ہو،اس لئے طلاق دے رہا ہوں۔
1۔ان دونوں جملوں میں یہ صراحت نہیں ہے کہ طلاق کس کو دے رہا ہے،بلاعنوان طلاق ہے،مخاطب کوئی نہیں،مثلا عورت کا نام،"میری زوجہ" کا لفظ،یا "تم" کا لفظ طلاق دے رہا ہوں کے ساتھ منسلک نہیں ہے،فقط تمہیں،تمہارے گھر والوں اور باپ کو طلاق کی وجہ بنایا ہے،نہ کہ طلاق کا مخاطب بنایا ہے۔
2۔زاہد حلفیہ بیان دیتا ہے کہ میں نے کبھی بھی طلاق کا ارادہ نہ کیا ہے،نہ مجھے یاد ہے،بلکہ منکر ہے۔
3۔اس میسج کے بعد دو بچے ہوئے ہیں،میاں بیوی نے ازدواجی زندگی گزاری ہے،عورت نے خاموشی سے زندگی گزاری ہے اور تین سال بعد طلاق کا مسئلہ اٹھایا ہے۔
تنقیح: اس کے متعلق مزید وضاحت یہ ہے کہ اس میسج کے بعد میاں بیوی بدستور ساتھ رہے ہیں اور ازدواجی تعلقات برقرار رکھے ہیں۔
10۔اگر مرد میسج کا انکار کرتا ہے تو اس کی کیا حیثیت ہوگی؟ کاغذ پر کتابت کی صورت میں تو دستخط ہونے کی وجہ سے انکار نہیں کرسکتا ،لیکن میسج مشتبہ ہوسکتا ہے،میاں بیوی ایک دوسرے کا موبائل استعمال کرتے رہتے ہیں،عورت از خود بھی شرارت کرسکتی ہے۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
طلاق کے وقوع کے لئے طلاق کے جملوں میں حقیقی نسبت کا ہونا ضروری نہیں،بلکہ معنوی نسبت بھی کافی ہے(نسبت معنوی کی تفصیل آخری سوال کے جواب میں آرہی ہے)،چونکہ مذکورہ صورت میں طلاق کے جملوں میں بظاہر صریح نسبت موجود ہے،لیکن اگر صریح نسبت نہ بھی ہو تو طلاق کے وقوع کے لئے معنوی نسبت (تخاطب یعنی عورت کا مخاطب ہونا)بھی کافی ہے اور وہ ان میں یقینا موجود ہے،اس لئے اگر شوہر نے خود یا اس کے کہنے پر کسی نے مذکورہ میسج(میں تمہیں اور تمہارے گھر والوں کی وجہ سے طلاق دے رہا ہوں،بس تم فلاں کی بیٹی ہو،اس لئے طلاق دے رہا ہوں) بیوی کو بھیجاتھا تو اس کے ذریعے دو رجعی طلاقیں واقع ہوچکی تھیں،لیکن اس کے بعد عدت کے دوران رجوع کی وجہ سے میاں بیوی کے ساتھ رہنے میں کوئی حرج نہیں ہوا اور اس دوران پیدا ہونے والے بچوں کا نسب بھی باپ سے ثابت ہوگا۔
البتہ اگر شوہر اس بات کا انکار کرتا ہے کہ اس نے یہ میسج نہ خود بھیجا ہے اور نہ کسی اور نے اس کے کہنے پر بھیجا ہے،بلکہ کسی نے اس کی اجازت کے بغیر اس کے موبائل سے کیا ہے تو پھر مذکورہ میسج سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی،کیونکہ طلاق کا اختیار شوہر کے پاس ہے،اس کی اجازت اور مرضی کے بغیر کسی اور کی دی ہوئی طلاق اس کی بیوی پر واقع نہیں ہوتی۔
لیکن اس صورت میں بھی عورت بغیر قسم کے شوہر کی بات کی تصدیق نہیں کرسکتی،کیونکہ شوہر کے نمبر سے طلاق کا میسج آنے میں دونوں باتوں کا احتمال موجود ہے،ایک یہ کہ اس نے خود میسج کیا ہو اور دوسرا یہ کہ کسی اور نے اس کی اجازت اور مرضی کے بغیر کیا ہو،لہذا بغیر حلفیہ بیان کے شوہر کے دعوی کی تصدیق نہیں کی جائےگی۔
حوالہ جات
"بدائع الصنائع " (3/ 100):
"وكذا التكلم بالطلاق ليس بشرط فيقع الطلاق بالكتابة المستبينة وبالإشارة المفهومة من الأخرس ؛لأن الكتابة المستبينة تقوم مقام اللفظ والإشارة المفهومة تقوم مقام العبارة".
"الفتاوى الهندية "(1/ 384):
"في المحيط: لو قال بالعربية: أطلق، لا يكون طلاقا إلا إذا غلب استعماله للحال فيكون طلاقا".
"رد المحتار" (3/ 248):
"(قوله: وما بمعناها من الصريح) أي مثل ما سيذكره من نحو: كوني طالقا واطلقي ويا مطلقة!بالتشديد، وكذا المضارع إذا غلب في الحال مثل أطلقك كما في البحر. قلت: ومنه في عرف زماننا: تكوني طالقا، ومنه: خذي طلاقك فقالت: أخذت، فقد صرح الوقوع به بلا اشتراط نية كما في الفتح، وكذا لا يشترط قولها:" أخذت" كما في البحر".
"منحة الخالق " (3/ 271):
" (قوله: إلا إذا غلب استعماله في الحال) قال الرملي: يستفاد منه الوقوع بقوله: تكوني طالقا أو تكون طالقا؛ إذ هو الغالب في كلام أهل بلادنا، تأمل اهـ".
"الدر المختار" (3/ 397):
"باب الرجعة: بالفتح وتكسر يتعدى ولا يتعدى (هي استدامة الملك القائم) بلا عوض ما دامت (في العدة) أي عدة الدخول حقيقة".
"رد المحتار" (3/ 230):
"(قوله :وأهله زوج عاقل إلخ) احترز بالزوج عن سيد العبد ووالد الصغير، وبالعاقل ولو حكما عن المجنون والمعتوه والمدهوش والمبرسم والمغمى عليه، بخلاف السكران، مضطرا أو مكرها، وبالبالغ عن الصبي ولو مراهقا، وبالمستيقظ عن النائم. وأفاد أنه لا يشترط كونه مسلما صحيحا طائعا عامدا، فيقع طلاق العبد والسكران بسبب محظور والكافر والمريض والمكره والهازل والمخطئ كما سيأتي".
"الدر المختار " (3/ 301):
"والقول لہ بيمينه في عدم النية ويكفي تحليفها له في منزله، فإن أبى رفعته للحاكم فإن نكل فرق بينهما مجتبى".
محمد طارق
دارالافتاءجامعۃالرشید
01/صفر1445ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | محمد طارق غرفی | مفتیان | مفتی محمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب |