03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
فیملی بزنس میں حساب کتاب نہ رکھنا
84182شرکت کے مسائلشرکت سے متعلق متفرق مسائل

سوال

 میں اپنے مرحوم والد کا کاروبار چلاتا ہوں- اس بات پر ہم سب بہن بھائی متفق ہیں کہ یہ کاروبار ہمارے باپ کا ہے اور ہم سب اس کے حصے دار ہیں -  کچھ وجوہات کی بنا   پر میں کاروبار کا حساب کتاب نہیں رکھ پاتا  ،   مختصر یہ کہ پچھلے کچھ عرصے میں میرے پاس منافع کی مد میں کچھ رقم جمع ہو گئی تھی ،جس کو میں نے اپنے حج کے لیے استعمال کر لیا تھا -مہربانی فرما کر میری رہنمائی کریں کہ کیا میں اس رقم سے حج کر سکتا تھا ؟میں آپ کے علم میں یہ بات  بھی لانا چاہتا ہوں کہ میرے گھر کے تمام اخراجات اسی کاروبار پر منحصر ہیں، جبکہ میرے باقی بہن بھائی صاحب روزگار ہیں اور ملازمت کرتے ہیں ۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

والد کی وفات کے بعدان  کے تمام ورثاء اپنے حصے کے مطابق اس کاروبار میں شریک ہیں۔کاروبار سے جو بھی نفع ہو وہ سب شرکاء میں  ان کے حصوں کے مطابق تقسیم  ہوگا ۔البتہ اگر آپ کے ہاں کاروباری عرف  (مارکیٹ پریکٹس)کےمطابق اس  طرح کاروبار چلانے والے کو تنخواہ ملتی ہےتو   آپ نے جتنے عرصے کام کیا اس کے بدلے آپ تنخواہ  کے حقدار ہیں اور یہ تنخواہ اتنی ہوگی جتنی عام طور اس قسم کی ملازمت کرنے والوں  کی ہوتی ہے ، اور اگر آپ کے ماحول میں مشترکہ کاروبار کو چلانے کی تنخواہ نہیں ہوتی تو  یہ عمل محض احسان اور تبرع سمجھا جائے گا۔

اگر شرکاء  اپنی ملازمتوں میں مصروف ہیں  اور کاروبار میں وہ سلیپنگ پارٹنرز ( شریک غیر عامل ) ہیں یا ان کا عمل دخل کاروبار میں کم ہے،تومستقبل کے لیے  آپ  باہمی معاہدے سے طے کر کے اپنے حصے کی شرح زیادہ بھی رکھ سکتےہیں،البتہ پھر اسکے بعد  آپ تنخواہ کے حقدار نہ ہونگے ۔

مشترکہ کاروبار میں حساب کتاب رکھنا ضروری ہے ۔کیونکہ مشترکہ منافع میں سب کا حق متعلق ہوتا ہے  جو کہ حساب رکھے بغیر الگ نہیں ہوسکتا ۔اگر آپ خود یہ کام نہیں کرسکتے تو شراکت داروں میں سے کوئی اور اس کی ذمہ داری اٹھا لے ،یا کوئی اکاؤنٹنٹ تعینات  کر لیں جوکاروبار  کا حساب رکھے۔

مشترک منافع  میں سے جو آپ نے ذاتی نوعیت کے اخراجات کیے ہیں ،چاہے وہ حج ہو یا دیگر اخراجات  وہ آپ پر قرض ہیں ۔اگر تنخواہ کا عرف(مارکیٹ پریکٹس) ہو    تواس کے تصفیے کا طریقہ یہ ہے کہ  سب سے پہلے آپ منافع کے مجموعے سے اپنی تنخواہ منفی کرلیں ، اس کے بعد جو رقم بن گئی وہ سب کا مشترکہ منافع ہے ۔ اب اس میں سے اپنے منافع  کا حساب لے کر   اپنی تنخواہ کی رقم سے ملا لیں ،اگر آپ کے ذاتی اخراجات اس میں پورے ہورہے ہیں تو ٹھیک ہے  ۔ اگر اخراجات اس سے بڑھ رہے ہیں تو اخراجات میں سے جو رقم بچ جائے گی اس کی ادئیگی آپ کے ذمے لازم ہے ۔اور اگر تنخواہ کا عرف نہیں تو پھرمنافع میں سے  اپنا حصہ الگ کر لیں پھر اسے ذاتی نوعیت کے اخراجات   سے منہا (مائنس) کر لیں بقیہ جو رقم بچ جائے گی، اس کی ادئیگی آپ کے ذمے لازم ہے۔دونوں صورتوں میں یا تو حساب کرکے ادا کر لیں یا ان سے معاف کروالیں ۔اگر حساب کتاب درج نہیں اور تو غالب گمان  کے ساتھ اندازہ لگا کرآپس میں  کمی زیادتی کی معافی کروالیں۔لیکن مستقبل میں حساب کتاب کی ترتیب بنانا لازم ہے۔

حوالہ جات

سورة بقرة(282):

يا أيها الذين آمنوا إذا تداينتم بدين إلى أجل مسمى فاكتبوه وليكتب بينكم كاتب بالعدل...

حاشية ابن عابدين (4/ 325):

‌لو ‌اجتمع ‌إخوة ‌يعملون في تركة أبيهم ونما المال فهو بينهم سوية، ولو اختلفوا في العمل والرأي اهـ وقدمنا أن هذا ليس شركة مفاوضة ما لم يصرحا بلفظها أو بمقتضياتها مع استيفاء شروطها

الفتاوى الهندية (2/ 307):

والحيلة في جواز الشركة في العروض وكل ما يتعين بالتعيين أن يبيع كل واحد منهما نصف ماله بنصف مال صاحبه حتى يصير مال كل واحد منهما نصفين وتحصل شركة ملك بينهما ثم يعقدان بعد ذلك عقد الشركة فيجوز بلا خلاف۔۔۔۔ وكذلك إذا كان لأحدهما دراهم وللآخر عروض ينبغي أن يبيع صاحب العروض نصف عروضه بنصف دراهم صاحبه ويتقابضان ثم يشتركان إن شاءا مفاوضة، وإن شاءا عنانا، كذا في المحيط، وفي المنتقى هشام عن محمد - رحمه الله تعالى - عبد بين رجلين اشتركا فيه شركة عنان أو مفاوضة جاز

المحيط البرهاني (8/ 390):

في «مجموع النوازل»: رجل يبيع شيئاً في السوق فاستعان بواحد من أهل السوق على بيعه، فأعانه، ثم طلب منه الأجر، فإن العبرة في ذلك لعادة أهل السوق، فإن كان عادتهم أنهم يعملون بأجر يجب أجر المثل، وإن كان عادتهم أنهم يعملون بغير أجر فلا شيء له.

مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر»(2/ 130):

والدين الصحيح: الدين لا يسقط إلا بالأداء أو الإبراء

محمد سعد ذاكر

دارالافتاء جامعہ الرشید،کراچی

30 /ذی الحجہ /1445ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد سعد ذاکر بن ذاکر حسین

مفتیان

محمد حسین خلیل خیل صاحب / سعید احمد حسن صاحب