03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
فیملی بزنس میں اختلاف کی صورت میں صلح کاحکم
84149شرکت کے مسائلشرکت سے متعلق متفرق مسائل

سوال

ہمارا ایک فیملی بزنس ہے جو کہ والدہ کی سرپرستی میں ہم بہن بھائیوں نے شروع کیاتھا، اس میں چار بہن بھائی شامل تھے ۔ جس کی تفصیل درج ذیل ہے ۔

بڑے بھائی : صفی الرحمن (مرحوم) وفات فروری 2021

چھوٹے بھائی : مفیض الرحمان (بڑے بھائی سے10 سال چھوٹے)

بڑی بہن : وقار النساء ( بڑے بھائی سے 15 سال چھوٹی )

چھوٹی بہن : بصیر النساء (بڑے بھائی سے 19 سال چھوٹی )

بڑے بھائی مسقط میں ملازمت کرتے تھے،والد کے انتقال کے وقت ہم تین بھائی بہن بالترتیب بارہ،تین اور سات سال کے تھے ، بڑے بھائی نے ہم تینوں کی ذمہ داری اٹھائی، وہ چاہتے تھے کہ بیرون ملک کی ملازمت سےسبکدوشی کے بعد جب وہ مستقلاً پاکستان آئیں تو تعلیم کے شعبہ سے متعلق کوئی کام (بزنس) کیا جائے۔ بڑے بھائی اور والدہ کی مدرسہ اور اسکول کھولنے کی دلی خواہش تھی،اسی رجحان کے باعث انھوں نے شروعات سے ہی مجھے بی ایس سی کے بعد بی ایڈ اور AMI سے مانٹیسوری ڈپلومہ کروایا ۔ جب میری تعلیم مکمل ہوئی اس وقت چھوٹے بھائی کم تعلیم اور بے روزگاری کے باعث بالکل فارغ تھے ۔ 1995 میں اقراء مدینہ الاطفال سے آغاز کیا تو چھوٹے بھائی کو ادارے کے بیرونی معاملات سنبھالنے کا کہا ،سب نے اس بات کی تائید کی کیونکہ ہم لوگ پردہ دار ہیں اور بیرونی معاملات میں مردوں سےواسطہ پڑتا ہے، اس طرح فیس ، ٹرانسپورٹ اور کرایہ وغیرہ کے معاملات ان کے سپرد کر دیے گئے اور پورا تعلیمی نظام اول روز سے ہی میں نے سنبھالا، جس میں شعبہ روضہ ( Montessori) ، شعبہ قاعدہ وحفظ شامل تھے ، پھرحفظ کے بعد catch up پروگرام کے تحت 6سال میں میٹرک تک تعلیم کا نظام بعد ازآں 2001 سے English medium اسکول مع ناظره با تجوید، چھوٹی بہن صبر النساء 2000 سے شامل ہوئیں تو حافظ قرآن ہونے کی حیثیت سے انھوں نے شعبہ حفظ سنبھال لیا اور میں نے دیگر شعبہ جات جو عصری علوم کے تھے وہ سنبھالے،جبکہ مالی معاملات مفیض الرحمن نےسنبھالے ۔

ہمارے گھر میں والدہ کی مرکزیت تھی تو مفیض پہلے تو ساری آمدنی والدہ کے پاس رکھواتے مگر کچھ ماہ بعد انھوں نے کہا کہ والدہ کے پاس رکھوانے اورادائیگیوں کے لیے لینے کی وجہ سے والدہ کو زحمت دینے کے بجائے وہ اپنے پاس رکھیں گے ،سب نے اس بات سے اتفاق کیا اور ان پر بھروسہ کیا ۔ بڑے بھائی صفی الرحمن (مرحوم) کے ملازمت سے سبکدوش ہونے کے بعد انھوں نے ادارہ کا سربراہ ہونا تھا تو سارے معاملات ان کے آنے پر اٹھا رکھے۔2004میں سب سے بڑے بھائی صفی الرحمن (مرحوم) ملازمت سے مستعفی ہو کر واپس آئے اور پورا وقت اسکول کو دینے لگے مگر چھوٹے بھائی مفیض نے خود سے کوئی حساب کتاب پیش نہیں کیا،چھوٹے بھائی شروعات میں ہم بہنوں کو 2000 جیب خرچ دیتے رہے،جو شادی کے بعد تنخواہ میں تبدیل ہو گئے 5000/- تک،میری اور چھوٹی بہن کی شادی 1999 اور 2000 میں بالترتیب ہوئی۔2004 سے 2006 دو سال کے انتظار کے بعد جب انھوں نے حساب کتاب پیش نہ کیا تو ہم چاروں کی میٹنگ ہوئی کہ چاروں کے اسکول کی آمدنی میں برابر کے shares ہوں گے جس پر چھوٹے بھائی نے اتفاق کیا اور حساب کتاب پیش کرنے اور Shares پر عمل درآمد کرنے کے لیے تین مہینے کا وقت مانگا ۔ اس کے فوراً بعد بڑے بھائی مرحوم شدید علیل ہو گئے یہاں تک کہ کومہ میں چلے گئے،ڈاکٹرز سے کسی بھی بیماری کی تشخیص نہ ہوئی ۔ پھر ان کا مفتی ہارون سے روحانی علاج کروایا تو اللہ کے حکم سے صحت یاب ہوئے ۔اس کے بعد ہم بہنیں جب بھی انھیں Shares سے متعلق چھوٹے بھائی سے پوچھ گچھ کا کہتے تو وہ خاموش ہوجاتے ۔ ہم خود سے مفیض سے کوئی سوال نہ کرتے ۔ بڑے بھائی کی صحت علالت کے باعث متاثر ہوئی تھی اس لیے زیادہ شدت سے بات نہیں کرتے تھے،دوسرے وہ ہمارےسر پرست تھے تو ہم ان ہی کی طرف سے پیش رفت چاہتے تھے جبکہ معاملہ خوش اسلوبی سے انجام پائے یہ بھی خواہش تھی،بڑے بھائی بھی شاید یہی چاہتے تھے۔جس وقت ام القریٰ سوسائٹی کا قیام عمل میں آیا اس میں والدہ صدر، میں (وقار النساء) نائب صدر،(مفیض الرحمن) جنرل سیکرٹری (بصیر النساء) خزانچی اور دو مرحوم بھائی بہن ممبر (وصی الرحمن،منہاج النساء) اور ایک بھانجا( انعام الرحمٰن) ممبر تھے ۔ کل سات (7) نقل منسلک ہے۔2012 میں والدہ کے انتقال کے بعد منجھلے بھائی مرحوم وصی الرحمن سوسائٹی کے ممبر سے صدر بنے اور ایک اور بھانجا مطیع الرحمن ممبر بنا ۔2015 میں ان کے انتقال کے بعد مفیض الرحمن جنرل سیکریٹری نے ان کےجھوٹے دستخط سےہمیں سوسائٹی سےغیرقانونی طورپر بےدخل کیا، ہم دونوں بہنوں اور دونوں بھانجوں کو اسکا علم نہ ہونے دیا، مفیض نےہم چاروں کی جگہ اپنی زوجہ اور غیر لوگوں کو سوسائٹی میں شامل کر لیا ،جبکہ اس سے پہلے تک تمام سوسائٹی ممبر گھر کے ہی افراد کو بنایا جاتا تھا۔ (نقل منسلک ہے)۔

تنخواہ کی مد میں جو رقم دے رہے تھے،2019 سے انھوں نے وہ آدھی کر دی ،شیئر کے مطابق دینا تو دور کی بات ہے۔2020 میں کو رونا کے بہانے انھوں نے ہم بہنوں کو وہ رقم بھی دینا بند کر دی جو وہ رہی سہی دے رہے تھے اور نومبر 2020 میں انھوں نے ہم دونوں کو اسکول سے بے دخل کر دیا ۔ہمارے پاس وکیلوں کو پیسے دینے اور عدالت کے چکر کاٹنے کی حیثیت نہیں ہے،اس ملک میں جہاں جج تک بک جاتے ہیں،ہماری کیا شنوائی ہوگی؟ہمارے والد،ہم دونوں بہنوں کے بچپن میں فوت ہو گئے تھے،والدہ 2012 میں اور منجھلے بھائی 2015 میں۔

2011 میں میرے شوہرنے مجھے اور میری بیٹی کو چھوڑ کر دوسری شادی کرلی اور ہم سے کوئی رابطہ رکھا نہ کوئی خرچ دیا، 2018 میں مجھے میرے بھائیوں نے خلع دلوائی میرا کوئی محرم سرپرست نہیں ہے ، 2021 فروری میں بڑے بھائی بھی فوت ہو گئے،اپنے نیک دل بھائی کی وفات اور دوسرے بھائی کے دھوکے نے میری صحت بری طرح متاثر کی ہے اور میری اتنی ہمت نہیں ہے کہ کوئی نوکری کر سکوں۔ایک سنگین غلطی یہ ہوئی کہ تحریری طور پر ہمارے پاس ثبوت نہیں ہیں۔ سارے معاملات کے والدہ اور چار بڑے مرحوم بہنیں اور بھائی گواہ تھے مگر اب وہ ہم میں نہیں۔کیونکہ ہمارا آپس میں تعلق اور بھروسہ ایسا تھا کہ ہمیں اندازہ ہی نہیں تھا کہ ہمارے ساتھ ایسا کچھ بھی ہو سکتا ہے۔آپ سے گزارش ہے کہ میرے چھوٹے بھائی ( مفیض) کی رہنمائی فرمائیں اور انھیں احساس دلائیں کہ نہ صرف میں روز اول سے ان کی بزنس پارٹنر ہوں اور ان کی چھوٹی بہن ہوں ۔ ایک بھائی کے کیا فرائض ہیں خصوصاً اس وقت جب کسی خاتون کا والی وارث وہی بھائی ہو۔میں نے کیریر کی ساری عمر 26 سال کا عرصہ 1999 سے 2020 تک اداروں کے لیے وقف کر دیے یہاں تک کہ دونوں اداروں اقراء مدینہ الاطفال" اور ام القری سیکنڈری اسکول بھی میرے ہی تجویز کردہ نام ہیں ۔ان دونوں اداروں کے تعلیمی نظام کی ایک ایک اینٹ میری رکھی ہوئی ہےشروع میں تو انھوں نے اعتماد حاصل کرنے کے لیے NTN نمبر بھی میرا رکھا ہوا تھا بعد ازآں کسی وقت 2015 میں غالباً اپنے نام خاموشی سے منتقل کروا لیا،مجھے انکم ٹیکس گوشواروں کے تین صفحات جو کہ پُر نہ ہوتے تھے ان پر دستخط کروا لیتے تھے اور بعد میں پر کرتے تھے ۔ تاکہ میرے علم میں کوئی اعداد و شمار نہ ہوں۔میں نے کئی بار کہا کہ فیسوں کی وصولیابی اور اسٹاف کی ادائیگیوں کا نظام بینک کے ذریعے کرلیں مگر ہمیشہ ٹال گئے۔بظاہر کرائے کے مکان میں رہتے ہیں مگر زندگی پر تعیش گزار رہے ہیں ۔ہم نے جس کو بھی ان سے بات چیت کے لیے نمائندہ بنایا ۔ وہ منظر سےغائب ہو جاتے اور پتہ چلتا کہ وہ حج یا عمرہ پر چلے گئے ہیں کمپنی کے خرچے پر،باقی آپ سمجھ لیں ۔

میرا حق 26 سال کا تقریباً 10 کروڑ بنتا ہے لیکن اگر میرے بھائی 5 کروڑ ادائیگی کر دیں تو میں راضی ہوں ،اگر یکمشت نہ کرنا چاہیں تو 5 لاکھ ماہانہ ادائیگی کریں وہ بھی آپ کی وساطت سے، یہ کر سکتے ہیں، بچے بچے کے پاس گاڑی ہے اور لاکھوں خرچ کرتے ہیں جو کہ خالص ان کا پیسہ نہیں،ہماری خون پسینے کی محنت ہے۔یہ غم سہہ کر میری صحت اس اسکول میں محنت کر کر کے اور اب یہ معاملہ،نڈھال ہے ۔ان کو سمجھائیں کہ میں چون کی اور یہ انسٹھ کے ہو چکے ہیں،اب کس بات کا انتظار ہے ،اگر یہ جھٹلاتے ہیں تو مکافات عمل کے ساتھ ساتھ آخرت کا بھی سوچ لیں،وہاں ان کا گریبان اور میرا ہاتھ ہوگا،میں ہرگز معاف نہیں کروں گی،ایک تو حق تلفی اور دوسرے جو ہزیمت انھوں نے اسکول سےنکال کر کی ہے ۔ اس کے لیے ادائیگی بھی کریں اور توہین کی معافی بھی مانگیں ۔ ان صفحات کو پڑھنے اور میرے مسئلے کے حل کی کوشش کے لیے میں آپ کی مشکوررہوں گی ۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

جو صورتحال آپ نے سوال میں لکھی ہے،اگر وہ حقیقت پر مبنی ہے تو یقیناًجو معاملہ آپ کے ساتھ پیش آیا ہے وہ انتہائی تکلیف دہ ہے،البتہ دارالافتاء جامعۃ الرشید بنیادی طور پر کسی شرعی مسئلے کا جواب دیتاہے نہ کہ اس قسم کے نزاعی معاملات میں تحقیق اور صلح کرواتا ہے،مذکورہ مسائل کے حل کے لیےدارالافتاء جامعۃ الرشید کا ایک ذیلی شعبہ شریعہ کنسلٹینسی سروسز(Shariah Consultancy Services) کے نام سے قائم ہے،اگر آپ چاہیں تو ان سے رابطہ کر کے اپنا معاملہ ان کے سامنے رکھ سکتی ہیں ،وہ فریقین کوآپس کے معاملات صلحاً طے کرنے کےلیےبھرپور کوشش کریں گے۔

حوالہ جات

محمد حمزہ سلیمان

دارالافتا ء،جامعۃالرشید ،کراچی

         ۳۰.ذو الحجہ۱۴۴۵ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد حمزہ سلیمان بن محمد سلیمان

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب