84188 | نکاح کا بیان | جہیز،مہر اور گھریلو سامان کا بیان |
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ ایک لڑکی جو عالمہ ہونے کے ساتھ ایک سرکاری اسکول میں ٹیچر ہے ۔اس نے اپنی مرضی سے ایک لڑکے سے تعلقات قائم کرنے کے بعد نکاح کی ۔مگرلڑکی کا والد ایک عالم دین ہونے کے ساتھ محکمہ تعلیم ہائیر ایجوکیشن سے ریٹائر ہے ۔وہ صرف اور صرف تنخواہ اور پیسوں کے لالچ کی وجہ سے اپنی بیٹی کی تنسیخ نکاح کی کوشش کر رہا ہے ۔اس کی کوشش ہے کہ میری بیٹی میرے بھتیجوں یعنی میرے بھائیوں کے لڑکوں میں سے کسی ایک کے ساتھ نکاح کرے ۔تاکہ تنخواہ میرے خاندان سے باہر نا جائے ۔اور کوئی پرایا اس سے مستفید نہ ہو ۔اس لڑکی نے جس لڑکے کے ساتھ شادی کی ہے ۔وہ اس کے خاندان سے باہر کا ہے ۔حالانکہ لڑکی کی ماں اور بھائی ،بہن اپنے والد کے اس فیصلے سے خوش نہیں ہیں ۔لڑکی اپنی تنخواہ اپنی مرضی سے نا ماں ،باپ اور نا اپنے بہن بھائیوں کو دینے کو تیار نہیں ہیں ۔والد صاحب صرف ایک حدیث پیش کرتا ہے ۔کہ تم اور تمہاری مال تمہاری والد کا ہے ۔ برائے کرم رہنمائی فرمائیں ۔شکریہ
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
اس لڑکی نے جس لڑکے کے ساتھ نکاح کیاہے اگریہ لڑکا اورلڑکی آپس میں ہم پلہ(کفو) ہیں تو یہ نکاح نافذ ہے، لڑکی کے والدکاصرف تنخواہ لینے کی لالچ میں کورٹ سے نکاح ختم کرانے کی کوشش کرنادرست نہیں،بالفرض اگرکورٹ نکاح فسخ کربھی دے شرعی طورپرکورٹ کایہ فیصلہ معتبرنہیں۔ اوراگر یہ دونوں ہم پلہ(کفو) نہیں ہیں تویہ نکاح کالعدم ہے،ہم پلہ(کفو) ہونے کامطلب یہ ہےکہ لڑکی اورلڑکا دین داری،مال،نسب اورپیشہ میں برابرہوں،غیرمعمولی فرق نہ ہو۔
والد مطلقاً اپنی اولاد کے مال کا مالک نہیں ہوتا، بلکہ یہ صرف احتیاج اور ضرورت کے ساتھ مقید ہے،مذکورہ حدیث کافقہاء کے نزدیک یہ مفہوم ہے،اس لئے صورت مسؤلہ میں والدکابغیر کسی شدیدضرورت کےلڑکی کی تنخواہ پرکوئی حق نہیں۔
حوالہ جات
حاشية السندي على ابن ماجه (ج 4 / ص 495):
وظاهر الحديث أن للأب أن يفعل في مال ابنه ما شاء كيف ،وقد جعل نفس الابن بمنزلة العبد مبالغة، لكن الفقهاء جوزوا ذلك للضرورة وفي الخطابي يشبه أن يكون ذلك في النفقة عليه بأن يكون معذورا يحتاج إليه للنفقة كثيرا وإلا يسعه فضل المال والصرف من رأس المال يجتاح أصله ويأتي عليه فلم يعذره النبي صلى الله عليه وسلم ولم يرخص له في ترك النفقة، وقال له: أنت ومالك لوالدك على معنى أنه إذا احتاج إلى مالك أخذ منه قدر الحاجة كما يأخذ من مال نفسه، فأما إذا أردنا به إباحة ماله حتى يجتاح ويأتي عليه لا على هذا الوجه فلا أعلم أحدا ذهب إليه من الفقهاء، وفي الزوائد إسناده صحيح ورجاله ثقات على شرط البخاري .
محمد اویس
دارالافتاء جامعة الرشید کراچی
۲/محرم الحرام۱۴۴۶ ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | محمد اویس صاحب | مفتیان | سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب |