84198 | نماز کا بیان | مسافر کی نماز کابیان |
سوال
سفرشرعی کی صحیح مقدار کیا ہے کلو میٹر کے حساب سے، کیونکہ فتاوی قاسمیہ وغیرہ میں بہت اختلاف ہے ۔ وضاحت فرمائیں ۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
ہندوستان اور پاکستان کے عام علاقوں کے لیے علماء ہند نے جو مسافت ِسفر مقرر کی ہے وہ 48میل انگریزی ہے جو 77.24 کلو میٹر بنتی ہے ۔ جمہور علماء کا اسی پر عمل ہے ، ان علاقوں کے لیے اسی حساب کو معتبر مانا جائے گا ۔
اصل سفر شرعی کی کوئی خاص مسافت مقرر نہیں ،تین دن صبح سے دوپہر تک پیدل آدمی یا اونٹ کی متوسط رفتار سے سفر کو سفرِ شرعی کہتے ہیں ، اس کی کوئی حتمی مسافت نہیں بتائی جاسکتی اس لیے اس میں مختلف اقوال کی گنجائش ہے ۔امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا اصل مذہب یہ تھا کہ میل وغیرہ سے تحدید نہ کی جائے ،لیکن حالات کے پیش نظر فقہاء احناف نے تحدید بھی کی ہے ۔ چار اقوال فتاوی قاسمیہ میں بھی مذکور ہیں ۔
15 فرسخ یعنی 45میل شرعی جو برابر ہے 82کلومیٹر 292 میٹر کے۔
16 فرسخ یعنی 48 میل شرعی جو برابر ہے 87کلومیٹر 786 میٹر 40 سینٹی میٹر کے۔
18 فرسخ یعنی 54 میل شرعی جو برابر ہے 98کلومیٹر 755 میٹر 20 سینٹی میٹر کے۔
21 فرسخ یعنی 63 میل شرعی ۔ جو برابر ہے 115کلومیٹر 214میٹر 40 سینٹی میٹر کے۔
فتاوی قاسمیہ میں ان اقوال کو ذکر کر کے اس حساب سے کلو میٹر کا حساب لگایا جس کی کم سے کم مقدار 82.296کلو میٹر بنتی ہے ۔یہ انکی تحقیق ہے جو اقوال فقہاء میں مذکور میلوں کی تحدید پر مبنی ہے۔
48 میل انگریزی جو مشہور اور اکثر علماء ہند کی رائے ہے وہ فقہاء کی ذکر کردہ تحدیدات پر مبنی نہیں ،بلکہ اصل پر مبنی ہے جو کہ تین دن صبح سے دوپہر تک کے معتدل سفر کی مسافت ہے۔ اس مسافت کا اندازہ علماء ہند نے بر صغیر کے عمومی علاقوں کے حساب سے 48 میل انگریزی لگایا ہے۔رسالہ اوزان شرعیہ مفتی شفیع رحمہ اللہ نے اسی کو اختیار کیا اور اس کتاب کی تقریظات میں علماء کی اکثر یت نے اسی تحقیق سے اتفاق کا اظہار کیا ہے ۔لہذا اسی تحقیق کو معتبر مانا جائے گا ۔
حوالہ جات
الموسوعة الفقهية الكويتية (25/ 29):
وذهب الحنفية إلى أن مسافة السفر الذي تتغير به الأحكام هو مسيرة ثلاثة أيام،وقدرها بعض مشايخ الحنفية بأقصر أيام السنة۔۔۔۔۔۔۔ثم إنه لا يشترط سفر كل يوم إلى الليل بل يكفي إلى الزوال، والمعتبر السير الوسط۔
«حاشية ابن عابدين = رد المحتار ط الحلبي» (2/ 123):
ثم اختلفوا فقيل: واحد وعشرون، وقيل: ثمانية عشر، وقيل: خمسة عشر والفتوى على الثاني لأنه الأوسط. وفي المجتبى فتوى أئمة خوارزم على الثالث۔
«المبسوط» للسرخسي (1/ 235):
وأقل ما يقصر فيه الصلاة في السفر إذا قصد مسيرة ثلاثة أيام) وفسره في الجامع الصغير بمشي الأقدام وسير الإبل فهو الوسط؛ لأن أعجل السير سير البريد، وأبطأ السير سير العجلة، وخير الأمور أوسطها، وهذا مذهب ابن عباس - رضي الله تعالى عنهما -، وإحدى الروايتين عن ابن عمر - رضي الله تعالى عنهما -، وعنه في رواية أخرى التقدير بيوم وليلة، وهو قول الزهري والأوزاعي رحمهما الله تعالى، وقال مالك - رضي الله تعالى عنه - أربعة برد كل بريد اثنا عشر ميلا، واستدل بحديث مجاهد وعطاء أن النبي صلى الله عليه وسلم قال «يا أهل مكة لا تقصروا الصلاة فيما دون مكة إلى عسفان، وذلك أربعة برد»
محمد سعد ذاكر
دارالافتاء جامعہ الرشید،کراچی
02 /محرم الحرام /1446ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | محمد سعد ذاکر بن ذاکر حسین | مفتیان | محمد حسین خلیل خیل صاحب / سعید احمد حسن صاحب |