84211 | ہبہ اور صدقہ کے مسائل | ہبہ کےمتفرق مسائل |
سوال
کیافرماتے ہیں علماءِ کرام درج ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ
نورمحمد کے 4بیٹے اور2بیٹیاں تھیں،ایک زندگی میں فوت ہوا ،اب تین بیٹے اوردو بیٹیاں ہیں ۔نورمحمد نے بڑے بیٹے کو3مرلے کا پلاٹ رضامندی سے دیا جوکہ باقی رقبہ سے الگ تھااوراس بیٹے نے رضامندی سے باقی سےاستغنی ظاہر کیا۔ 13مرلے کا پلاٹ اس طرح نورمحمدنے تقسیم کیا کہ جو پچھلاحصہ لے گا اس کو راستہ اگلے حصےکے مالک سے ملے گا،اورپچھلاحصہ تعمیرشدہ بھی تھا،لہذا دوسرے بیٹے کو قریبا8مرلہ پچھلاحصہ تعمیرشدہ ملا۔سب سے چھوٹے بیٹے کو 5 مرلےکا فرنٹ پلاٹ ملا جو اس نے بعدمیں تعمیرکیا ۔
بیٹیوں کو حصہ نہیں دیاگیا اوراس وقت کے تحصیل دارکے رو برو انہوں نے بھائیوں کے حق میں بیان دے دیا جس کو وہ اب بھی وہ تسلیم کرتی ہیں ،مگرساتھ میں یہ بھی کہتی ہے کہ ہمیں حصہ نہیں ملا۔
اب تینوں پلاٹوں پر تعمیرات کا معیاراورجگہ کی قیمتیں مختلف ہیں،نورمحمد نے زندگی میں زبانی جگہ تو مذکورہ طریقے پر کردی تھی لیکن کاغذات میں وراثت کے بعد اس طرح عمل میں آئی،بیٹے بیٹیاں اس وقت اس پر راضی تھے،اب بھی رضامندہیں۔
اب سوالات یہ ہے کہ
١۔ کیا مذکورہ تقسیم شریعت کی نظرمیں درست ہے ؟
۲۔بیٹیوں کے نام سے رقبہ منتقل کروایا گیا،لیکن انہیں نقدی وغیر نہیں دی گئی اوررضامندی سے انہوں نے یہ انتقال کروائے۔
۳۔ جس بیٹے کو 3مرلے کا پلاٹملا وہ بھی راضی تھا، خوشی سے اس نے لے لیا تھا ،کیا اس کی رقبہ میں کمی کو اب پورا کیاجانا ضروری ہے؟
۴۔ کیا بہنوں کی اس طورپر رضامندی کہ وہ مروّجہ رسوم کی وجہ سے رقبہ بھائیوں کو بلامعاوضہ عطاکردیں شریعت کی نظرمیں رضامندی سمجھی جائے گی ؟
۵۔ کیا بھائیوں کی کم رقبہ پر رضامندی شریعت کی نظر میں معتبرہے ۔
٦۔اس تقسیم میں جہاں بھی سقم ہے، اس کی درستگی کس طرح ممکن ہے ؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
واضح رہے کہ ہر انسان کو اپنی صحت والی زندگی میں (یعنی مرض الموت سےپہلے پہلے(اپنی جائیداد میں ہرجائز تصرف کاحق حاصل ہے،لہٰذا اگرکوئی اپنی زندگی میں مرض الموت سے پہلےاپنی جائیداد اپنی اولاد یا کسی اور کو ہبہ(گفٹ)کرنا چاہےتو اس طرح کرنا اس کے لئےجائزہے،البتہ اس میں اس بات کاخیال رکھنا ضروری ہے کہ اگر اولاد کو ہبہ(گفٹ) کرنا چاہےتو ان میں برابری اور انصاف سے کام لے،اورکسی بیٹے یابیٹی کو بغیر کسی معتبرشرعی عذرکےکم دینایا بالکل محروم کردیناجائزنہیں،تاہم اگرکوئی اپنی ساری جائیداد کسی ایک بیٹے یا بیٹی کو ہبہ(گفٹ)کرے،اور اس کو باقاعدہ مالکانہ قبضہ دے،تو وہ بیٹایابیٹی اس جائیداد کےمالک بن جائیں گے،اگرچہ ہبہ کرنے والے کےلئے اس طرح تفریق کرنا ٹھیک نہیں اور وہ اس کی وجہ سےگنہگارہوگا۔
زندگی میں کچھ لیکریہ کہنا کہ والد کے انتقال کے بعد کچھ نہیں لوں گا،اس سے میراث ساقط نہیں ہوتا،اس لیےکہ میراث موت کے بعد ثابت ہوتاہے اورثبوت سے پہلے کسی چیز کو ساقط نہیں کیا جاسکتا۔
اس کے تمہیدکےبعد آپ کےسوالات کاجواب نمبروارذکرکیاجاتاہے:۔
١۔ زندگی میں اولاد کو کچھ دینا ہبہ ہے، میراث کی تقسیم نہیں ،کیونکہ میراث موت کے بعدتقسیم کی جاتی ہے،اورہبہ والد کو سب کو کرناچاہئے تھا اوربرابر کرنا چاہیے تھا کسی کو دینا اورکسی کو محروم کرنا یا کم زیادہ دینا شریعت کی نظرمیں درست طرزِعمل نہیں ہے، اگرچہ جن بیٹوں کو والدنےجائیدد زندگی میں دی تھی اورالگ کرکے ان پر قبضہ کرادیاتھا وہ اس کے مالک بن گئے تھے اوراس میں والد کےفوت ہونے کے بعداصولاً میراث جاری نہیں ہوگی،تاہم چونکہ والد اس تفریق سے گناہگارہوئے تھے، تو ان بیٹوں کی اخلاقی ذمہ بنتی ہے کہ وہ والد کو گناہ سے بچائیں اور بقیہ بہن بھائیوں کے حق میں اس جائیداد سے دستبراد ہوجائیں،تاکہ یہ شرعی ضابطہ کے تحت دوبارہ تقسیم ہوسکے،تاہم اگروہ ایسانہیں کرتے تو ان پرجبرنہیں کیاجاسکتا۔
۲۔اگر"انتقال" سے مراد اُن جائیدادوں کا انتقال ہے جو زندگی میں والدنے بیٹوں کو دیئے تھے تو وہ تو بغیر انتقال کے محض جداکرنے اورقبضہ دینے سے بیٹوں کی ملک میں آگئے تھے شرعاً اس کےلیے انتقال کی کوئی ضرورت نہیں تھی اوراگرمراد موت کے بعدترکہ میں رہ جانے والی کسی جائیداد کا انتقال ہے تو رسم وراج کی بناء پر انتقال کرانے سے ان کاحق ختم نہیں ہواجب تک کوئی چیز لیکر وہ اپنے باقی حق سے صلح نہ کرلیں یا قبضہ کرکے واپس نہ دیں۔
۳۔ جواس نے زندگی میں والد سے لیا تھا اس کا میراث سے کوئی تعلق نہیں ہے،اس لیےکہ زندگی میں لیا جانے والاگفٹ ہے اور میراث موت کے بعد جاری ہوتی ہے ۔زندگی میں کوئی چیز والد سے لینے سےمیراث ختم نہیں ہوتی،اگرچہ لینےوالا یہ بھی کہہ دے کہ اس کے علاوہ میراث سے میں کچھ بھی نہیں لوں گا،لہذا والد کی چھوڑی ہوئی میراث میں مذکوربیٹے کو پوراپوراحصہ لینے کاحق ہے،ہاں اگروہ اپنی خوشی سےمیراث میں سے کوئی چیز لیکر باقی حصےسے صلح کرلیں یا قبضہ کرکے واپس دیگرورثہ کو دیدے تو شرعاً یہ ممنوع نہیں ہے،اوراخلاقاً اس کو ایسا کرنا بھی چاہیے۔
۴۔ اگر"رقبہ دینے سےمراد"والد کی زندگی میں دینا ہےتویہ رقبہ بہنوں نے نہیں بلکہ والد نے دیا ہے جس پر بہنوں نے مروّجہ رسوم کے پیش نظر رضامندی ظاہر کی ہے،لہذا بھائی مالک بن گئے تھے، اگرچہ والدکے لیے اس طرح کی تفریق کرنا درست نہیں تھا اوربھائیوں کی بھی اخلاقاً یہ ذمہ دراری بنتی ہے کہ والد کو گناہ سے بچانے کی خاطر بہنوں کو بھی اس میں سے حصہ دیں، تاہم اگروہ ایسا نہ کریں توان پراس حوالے سے جبرنہیں کیاجاسکتا۔
اوراگر"رقبہ دینے سے"سائلہ کی مراد ترکہ میں اپناحصہ چھوڑناہے تواس کاحکم یہ ہےکہ کسی وارث کا ترکہ میں سے کچھ لئے بغیر زبانی طور پررسم ورواج کی خاطراپنا حصہ بخش دینا درست نہیں، اس سے اس کا ترکہ میں حق ختم نہیں ہوتا، بلکہ بدستور باقی رہتاہے،ہاں اگروہ کچھ لیکر باقی بخش دیں یا قبضہ کرکے واپس بہن ،بھائیوں کودیدیں تو پھر یہ بخشش درست ہوتی ہے۔
۵۔معتبرہے، اگرچہ والدکےلیے اس طرح بلاکسی معتبرشرعی وجہ کے کسی کو کم اورکسی کو زیادہ دینا اورکسی کو بالکل ہی محروم کرنا درست طرزِ عمل نہیں، تاہم قبضہ سے ملکیت آجاتی ہے۔جس کی تفصیل ماقبل میں گزرچکی ہے ۔یادرہے کہ اس سے مذکور بھائی کی میراث میں حق ختم نہیں ہوا۔
٦۔سقم یہ ہےکہ والد نے سب کو برابرنہیں دیا اوربعض کو بالکل ہی محروم کردیاہےجس سےوہ گناہگارہوئے لہذا جائیداد لینے بھائیوں والے کی اخلاقی ذمہ داری یہ ہےکہ وہ اس جائید ادکوواپس کرکے شریعت کے مطابق تقسیم کردیں،تاہم اگروہ ایسا نہ کریں تو دیگرورثہ کو اعتراض اورجبر کا حق نہیں۔
حوالہ جات
المحيط البرهاني لمحمود النجاري - (ج 6 / ص 668)
والإرث إنما يجري فيما يبقى بعد الموت.
صحيح مسلم - عبد الباقي (3/ 1242)
عن النعمان بن بشير قال * تصدق علي أبي ببعض ماله فقالت أمي عمرة بنت رواحة لا أرضى حتى تشهد رسول الله صلى الله عليه وسلم فانطلق أبي إلى النبي صلى الله عليه وسلم ليشهده على صدقتي فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم أفعلت هذا بولدك كلهم قال لا قال اتقوا الله واعدلوا في أولادكم فرجع أبي فرد تلك الصدقة.
وفی خلاصة الفتاوی ج: 4ص: 400
رجل لہ ابن وبنت اراد ان یھب لھما فالافضل ان یجعل للذکرمثل حظ الانثیین عندمحمد وعند ابی یوسف رحمہ اللہ بینھماسواء ھو المختارلورود الآثار.
الفتاوى الهندية (4/ 391)
(الباب السادس في الهبة للصغير) ۔۔۔۔۔رجل وهب في صحته كل المال للولد جاز في القضاء ويكون آثما فيما صنع، كذا في فتاوى قاضي خان. وإن كان في ولده فاسق لا ينبغي أن يعطيه أكثر من قوته كي لا يصير معينا له في المعصية، كذا في خزانة المفتين.
الفتاوى الهندية (5/ 160)
لأن الجبر على التبرع ليس بمشروع.
الدر المختار " (5/ 690)
"(وتتم) الهبة (بالقبض) الكامل (ولو الموهوب شاغلا لملك الواهب لا مشغولا به)..... (في) متعلق بتتم (محوز) مفرغ (مقسوم ومشاع لا) يبقى منتفعا به بعد أن (يقسم) كبيت وحمام صغيرين لأنها (لا) تتم بالقبض (فيما يقسم ولو) وهبه (لشريكه) أو لأجنبي لعدم تصور القبض الكامل كما في عامة الكتب فكان هو المذهب وفي الصيرفية عن العتابي وقيل: يجوز لشريكه، وهو المختار (فإن قسمه وسلمه صح) لزوال المانع ".
الأشباہ والنظائر لابن نجیم :
"لو قال الوارث: تركت حقّي لم يبطل حقُّه؛ إذ الملكُ لا يبطل بالتّرك".(ص؛309/ما یقبل الاسقاط من
الحقوق وما لا یقبلہ/ط:قدیمی)
تكملة حاشية رد المحتار - (2 / 208)
ولو قال تركت حقي من الميراث أو برئت منها ومن حصتي لا يصح وهو على حقه، لان الارث جبري لا يصح تركه.
وفی مشکاة المصابیح:
عن أبي حرة الرقاشي عن عمہ قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: ألا لا تظلموا، ألا لا یحل مال امرئ إلا بطیب نفس منہ رواہ البیہقي في شعب الإیمان والدارقطني في المجتبی (مشکاة شریف ص ۲۵۵)روی الامام احمد فی مسندہ:
وفی مشكاة المصابيح الناشر : المكتب الإسلامي - بيروت - (2 / 197)
وعن أنس قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : " من قطع ميراث وارثه قطع الله ميراثه من الجنة يوم القيامة " . رواه ابن ماجه.
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) - (5 / 642)
(أخرجت الورثة أحدهم عن) التركة وهي (عرض أو) هي (عقار بمال) أعطاه له (أو) أخرجوه (عن) تركة هي (ذهب بفضة) دفعوها له (أو) على العكس أو عن نقدين بهما (صح) في الكل صرفا للجنس بخلاف جنسه (قل) ما أعطوه (أو كثر) لكن بشرط التقابض فيما هو صرف
وفی البحر الرائق:
یکرہ تفضیل بعض الأولاد علی البعض في الہبۃ حالۃ الصحۃ (البحر الرائق ۷؍۴۹۰ زکریا)
وفی الھندیة :
یعطي البنت کالابن عند الثاني، وعلیہ الفتویٰ (شامي ۸؍۵۰۱-۵۰۲ زکریا،و کذا في الفتاویٰ الہندیۃ ۴؍۳۹۱ زکریا)
وفی العالمگیرية (4/ 391)
(الباب السادس في الهبة للصغير) ۔۔۔رجل وهب في صحته كل المال للولد جاز في القضاء ويكون آثما فيما صنع، كذا في فتاوى قاضي خان.
سیدحکیم شاہ عفی عنہ
دارالافتاء جامعۃ الرشید
4/1/1446ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | سید حکیم شاہ | مفتیان | سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب |