03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
غصے کی حالت میں کب طلاق نہیں ہوتی؟
84228طلاق کے احکامطلاق دینے اورطلاق واقع ہونے کا بیان

سوال

کیا غصے میں طلاق بالخصوص جبکہ وہ تحریری طور پر ہو،واقع ہوتی ہے کہ نہیں؟ اور کیا غصہ طلاق کے واقع ہونے سے مانع ہوسکتا ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

یہ بات مد نظر رہے کہ طلاق عام طور پر غصے ہی کی حالت میں دی جاتی ہے اور عام نارمل غصے کی حالت میں دی جانے والی طلاق واقع ہوجاتی ہے،تاہم اگر  کسی کا غصہ ایسا ہو کہ غصے کی حالت میں وہ  حواس باختہ ہوجاتا ہواور اس پر مدہوشی کی ایسی کیفیت طاری ہوجاتی ہو کہ اسے اپنے اقوال و افعال کا کچھ پتہ نہ چلتا ہو  کہ وہ کیا بول رہا ہے اور کیا کررہا ہے تو پھر ایسے غصے کی حالت میں طلاق واقع ہونے یا نہ ہونے کے حوالے تفصیل درج ذیل ہے:

اگر غصے کی وقت اس کی مذکورہ کیفیت لوگوں میں مشہور ہو اوروہ شخص یہ  حلفیہ بیان دےکہ طلاق کے الفاظ بولتے وقت اس پر یہی کیفیت طاری تھی تو پھر اس صورت میں طلاق واقع نہیں ہوگی اور اگر غصے کی وقت اس کی  مدہوشی کی یہ کیفیت لوگوں میں معروف ومشہور نہ ہو تو پھر اگر دو معتبر مرد یا ایک معتبر مرد اور دو عورتیں یہ شہادت دیں کہ بوقت طلاق اس پر یہی کیفیت طاری  تھی تو بھی طلاق نہیں ہوگی۔

لیکن اگر غصے کے وقت اس کی یہ کیفیت لوگوں میں معروف نہ ہو اور نہ اس کے پاس اس پر گواہ موجود ہوں تو پھر ایسی حالت میں دی گئیں طلاقیں بھی واقع ہوں گی۔(احسن الفتاوی:5/162)

حوالہ جات

" رد المحتار" (3/ 244):

"وسئل نظما فيمن طلق زوجته ثلاثا في مجلس القاضي وهو مغتاظ مدهوش، أجاب نظما أيضا بأن الدهش من أقسام الجنون فلا يقع، وإذا كان يعتاده بأن عرف منه الدهش مرة يصدق بلا برهان. اهـ".

"العقود الدرية في تنقيح الفتاوى الحامدية "(1/ 38):

"(سئل) في رجل حصل له دهش زال به عقله وصار لا شعور له لأمر عرض له من ذهاب ماله وقتل ابن خاله فقال في هذه الحالة يا رب أنت تشهد على أني طلقت فلانة بنت فلان يعني زوجته المخصوصة بالثلاث على أربع مذاهب المسلمين كلما حلت تحرم فهل لا يقع طلاقه؟

(الجواب) : الدهش هو ذهاب العقل من ذهل أو وله وقد صرح في التنوير والتتارخانية وغيرهما بعدم وقوع طلاق المدهوش فعلى هذا حيث حصل للرجل دهش زال به عقله وصار لا شعور له لا يقع طلاقه والقول قوله بيمينه إن عرف منه الدهش وإن لم يعرف منه لا يقبل قوله قضاء إلا ببينة كما صرح بذلك علماء الحنفية رحمهم الله تعالى".

محمد طارق

دارالافتاءجامعۃالرشید

07/محرم الحرام1446ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد طارق غرفی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب