03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
بیٹے کےلیےبوڑھے والد کو مکان سے بے دخل کرنا
84264معاشرت کے آداب و حقوق کا بیانمتفرّق مسائل

سوال

کیافرماتے ہیں علماء ِکرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ

زمین بیوی کی ہے اوراس پر خرچہ اس کے میاں نے کرکے مکان بنایا ہے،مذکورہ بیوی سے میاں کے دولڑکے اورتین لڑکیاں ہیں، میاں نے دوسری شادی کی ہےاوراس کی پہلی بیوی فوت ہوگئی ہے، دوسری بیوی سے میاں کےچھوٹے چھوٹے بچے ہیں جو اس مکان میں رہتے ہیں اورخود یہ شخص بوڑھا ہونے کے باجود کراچی میں ریڑھی پر مزدوری کرکے بچوں کے نان ونفقے  کا  بندوبست کرتا ہے،اب چھٹیوں میں گھر گیاتو پہلی بیوی کی اولاد میں سےایک بیٹاوالد کو مذکور مکان اورزمین سے بے دخل کرنےلگا، وہ والدسےکہتاہے کہ زمین بھی ہماری ہے اورمکان بھی،آپ یہاں سے نکل جائیں، اس نےوالدکو دھکے بھی دیئے، اس مسئلہ کے بارے میں شریعت کیاکہتی ہے؟ رہنمائی فرمائیں ۔

کیا والد کی زندگی میں اولاد زمین اورمکان والد سے لے سکتے ہیں، جبکہ ان کی والدہ فوت ہوچکی ہو؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

جب تعمیروالد نے اپنے خرچے پربنوائی ہےتو اس کے مالک وہی ہیں،اولاد کا اس میں کوئی حق نہیں ،جہاں تک  پلاٹ کی بات ہے تواگربیوی نےمذکورہ  پلاٹ خاوندکو ہبہ کردیا ہوتو اس میں بھی بیٹوں کا والد کی زندگی میں کوئی حق  نہیں اوراگرہبہ نہ کیاہو توبھی چونکہ بیوی  فوت ہوگئی ہے اورشوہر ہونے کی حیثیت سے اس پلاٹ میں ان کا چوتھاحصہ بنتاہےاورتعمیر بھی انہی کی ہے،لہذا  انہیں بے دخل کرناصحیح نہیں ہے، نیز والد بوڑھےبھی  ہیں جس کے شریعت میں بڑے حقوق ہیں ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ایک حدیث میں ارشاد فرمایا کہ: وہ تمہاری جنت اور دوزخ ہیں ’’ ھما جنتک و نارک‘‘۔ (سنن ابن ماجۃ ، حدیث نمبر : ۳۶۶۲ ، باب بر الوالدین)  اور حضرت ابو بکرہ رضی اللہ عنہ   سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا : ’’والدین کی نافرمانی کے سوا اللہ جس گناہ کو چاہیں گے معاف کردیں گے ، البتہ والدین کی نافرمانی کا عذاب موت سے پہلے زندگی ہی میں شروع ہوجاتا ہے ۔ (تفسیرمظہری : ۵/۴۳۲)خود اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ’’ جب ماں باپ یا ان میں سے ایک بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو اُف تک نہ کہو  اور نہ جھڑکی دو، بلکہ ان سے نرم گفتگو کرو ‘‘۔(بنی اسرائیل :۲۳) نیزدوسری بیوی سے ان کے چھوٹے چھوٹے بچےبھی ہیں جن کی رہائش کےلیے والد اس مکان کے محتاج ہیں،لہذا ان حالات میں چھوٹی اولادسمیت ان کوگھرسے بے دخل کرناظلم ،زیادتی اورناانصافی  ہے، مذکوربیٹا اگربوڑھے والد کے ساتھ اورکوئی تعاون نہیں کرسکتا تو کم از کم یہ ظلم تو نہ کرے کہ ان کو ا اپنے ہی گھر سے بے دخل کردے،مذکوربیٹےکوچاہیے کہ اس پلاٹ میں ماں کی میراث میں سےجتناحصہ اس کا بنتاہے(%21.42) اس کے بدلےکوئی اورقطعہ زمین قبول کر لےاوریہ ظلم نہ کرے ، ورنہ تو نہ اس گھر کےتعمیرمیں اس کاکوئی حصہ ہے اورنہ ہی پورے پلاٹ میں، لہذا والد کو نکال کر پورے مکان پر(تعمیر اورمکمل پلاٹ سمیت ) قبضہ کرناجائزنہیں ہے، والد کی زندگی میں ان کے مال میں بیٹوں کا کوئی حق نہیں ہوتا، وہ جوچاہیں اپنے مال کے ساتھ کرسکتےہیں، بیٹوں کوان پر اعتراض کا کوئی حق نہیں ہے،میراث موت کے  بعد تقسیم  ہوتی  ہےنہ کہ زندگی میں ،لہذا بیٹے والد سے ان کی زندگی میں کسی قسم کی مال کا مطالبہ نہیں کرسکتے ،اورنہ  ہی ان کو ان کی ملکیت سے بے دخل کرسکتے ہیں ،لہذا بیٹا خدا سے ڈرے،توبہ اوراستغفارکرے ،والد کے ساتھ بہترسلوک کرے اوراس ظلم سے فوراً باز آجائے ورنہ اس نافرمانی کے وبال کا وہ دنیا اورآخرت میں سامناکرے گا۔

حوالہ جات

سنن سعيد بن منصور (2/ 145):

 عن محمد بن المنكدر، قال: أتى النبي صلى الله عليه وسلم رجل، فقال: إن لأبي مالا وعيالا، ولي مال وعيال، وإنه يريد أن يأخذ مالي فينفقه على عياله، فقال: «أنت ومالك لأبيك»

عمدة القاري شرح صحيح البخاري (13/ 142) :

رَوَی ابْن حبَان فِي (صَحِيحه) : أَن رجلا أَتَى النَّبِي صلى الله عَلَيْهِ وَسلم يُخَاصم أَبَاهُ فِي دين لَهُ عَلَيْهِ، فَقَالَ لَهُ صلى الله عَلَيْهِ وَسلم: (أَنْت وَمَالك لأَبِيك) .

المبسوط للسرخسي (17/ 115) :

 الشرع أضاف مال الولد إلى الأب بقوله - صلى الله عليه وسلم - «أنت ومالك لأبيك» وأثبت له حق تملك المال على ولده عند الحاجة؛ ولهذا كان له أن ينفق من ماله بالمعروف وحاجته إلى النفقة لإبقاء نفسه إلى الاستيلاد لإبقاء نسله فإن بقاءه معني ببقاء نسله إلا أن الحاجة إلى إبقاء النفس أصلي فيثبت له ولاية صرف مال الولد إلى حاجته من غير عوض الخ

وفی البر والصلة للحسين بن حرب (ص: 51):

عن إسماعيل بن أبي خالد، عن الشعبي قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " ألا أنبئكم بأكبر الكبائر: الإشراك بالله، وعقوق الوالدين، واليمين الغموس "

وفی الدر المنثور في التفسير بالمأثور (5/ 267):

عن أبيه عن جده أبي بكرة عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: كل الذنوب يؤخر الله منها ما شاء إلى يوم القيامة إلا عقوق الوالدين فإنه يعجله لصاحبه في الحياة قبل الممات.

وفی البر والصلة للحسين بن حرب (ص: 56):

 عن سعيد المقبري، أنه سمع السلولي، يحدث نوفل بن مساحق , أنه سأل كعب الأحبار: ما تجدون في كتاب الله من عقوق الوالدين؟ قال: " أنا أخبرك: إذا أقسم عليه فلم يبره، وسأله فلم يعطه، وائتمنه فلم يرد عليه، واشتكى إلى الله ما يلقى منه فذلك العقوق كله "

الاختيار لتعليل المختار (4/ 10) :

قال: (ونفقة الآباء والأجداد إذا كانوا فقراء على الأولاد الذكور والإناث) قال تعالى: {فلا تقل لهما أف}

[الإسراء: 23] نهاه عن الإضرار بهما بهذا القدر وترك الإنفاق عليهما عند حاجتهما أكثر إضرارا من ذلك. وقال - عليه الصلاة والسلام -: «أنت ومالك لأبيك» ، وقال: «إن أطيب ما أكل الرجل من كسبه، وإن ولده من كسبه، فكلوا من كسب أولادكم» ، فإذا كان مال الابن يضاف إلى الأب بأنه كسبه صار غنيا به فتجب نفقته فيه، وقال تعالى: {ووصينا الإنسان بوالديه حسنا} [العنكبوت: 8] أي يحسن إليهما، وليس إحسانا تركهما محتاجين مع قدرته على دفع حاجتهما، وقال تعالى في حق الوالدين الكافرين {وصاحبهما في الدنيا معروفا} [لقمان: 15] ، وليس من المعروف تركهما جائعين وهو قادر على إشباعهما، وهو على الذكور والإناث على السواء في رواية، وهو المختار لاستوائهما في العلة والخطاب، وقيل على قدر الإرث لقوله تعالى: {وعلى الوارث مثل ذلك} [البقرة: 233] ، ويشترط فقرهم لأن إيجاب نفقة الغني في ماله أولى.

قال اللہ تعالی:

{وَقَضَى رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُمَا أَوْ كِلَاهُمَا فَلَا تَقُلْ لَهُمَا أُفٍّ وَلَا تَنْهَرْهُمَا وَقُلْ لَهُمَا قَوْلًا كَرِيمًا  [الإسراء: 23، 24]

وفی البر والصلة للحسين بن حرب (ص: 21):

عن مورق العجلي، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «هل تعلمون نفقة أفضل من نفقة في سبيل الله؟» قالوا: الله ورسوله أعلم قال: «نفقة الولد على الوالدين» وزاد الهيثم قال: ودعاؤهما له بالخير يثبت الأصل، وينبت الفرع، ودعاؤهما بالشر يبير الأصل.

وفی سنن ابن ماجه ت الأرنؤوط (4/ 632):

عن أبي أمامة، أن رجلا قال: يا رسول الله، ما حق الوالدين على ولدهما؟ قال: "هما جنتك ونارك"

وفی البر والصلة للحسين بن حرب (ص: 1) :

عن عون بن عبد الله، أن رجلا سأل ابن مسعود: أي الأعمال أفضل؟ فقال: سألتني عما سألت رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: «الصلاة لوقتها، وبر الوالدين، والجهاد في سبيل الله».

وفی ’’ مشکوٰۃ المصابیح ‘‘ :

عن أبی حرۃ الرقاشی عن عمہ قال : قال رسول اللہ ﷺ : ’’ ألا لا تظلموا ، ألا لا یحل مال امرئ إلا بطیب نفس منہ ‘‘ ۔(مشکوٰۃ المصابیح :ص؍۲۵۵، باب الغصب والعاریۃ)

سیدحکیم شاہ عفی عنہ

دارالافتاء جامعۃ الرشید

8/1/1446ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سید حکیم شاہ

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب