84290 | سنت کا بیان (بدعات اور رسومات کا بیان) | متفرّق مسائل |
سوال
محکمہ انہار کی ایک جامع مسجد ہے ،اس میں پیش امام بدعتی مشرک تھا،اس نے اپنی پوری سروس کے دوران درج ذیل بدعات جاری رکھیں:
صلاة و سلام پڑھوانا،نماز جنازہ کے بعد اہتمام سے قل شریف پڑھوانا،لوگوں کو بٹھاکر دعاء منگوانا،قرآن شریف پر رسماً ہاتھ رکھوا کر بخشش کروانا اور پیسے لیناوغیرہ۔
اس کا تعلق اہل بدعت اور اہل تشیع سے تھا،اس کالونی میں لوگوں کی اکثریت بھی انہیں لوگوں کی تھی،صحیح العقیدہ لوگ آٹے میں نمک کے برابر تھے،مذکورہ امام کی ریٹائرمنٹ کے بعد صحیح العقیدہ امام کا تعین ہوا،جس کی وجہ سے بدعتی لوگ اس مسجد میں پانچ وقت اپنی علیحدہ جماعت کروانے لگے،نئے امام نے لوگوں کو جوڑنے کے لئے یہ حکمت علمی اپنائی کہ اس نےجمعہ کے دن جمعہ کی نماز کی سنتوں کے بعد کی تین دفعہ دعاء کو برقرار رکھا،اسی طرح جنازے کے بعد پانچ چھ منٹ تقریر کرتا،اس کے بعد بغیر کسی اہتمام کے قل شریف پڑھتا اور اس کے بعد کسی خاص اہتمام کے بغیر دعاء کے لئے ہاتھ اٹھاکر نیچے کرلیتا،تاکہ لوگ اپنے جنازے اہل بدعت سے نہ پڑھوائیں اور اس کے ساتھ جڑنے کی وجہ سے رفتہ رفتہ لوگوں کے عقائد کی اصلاح ہوجائے۔
اس حکمت عملی کا فائدہ یہ ہوا کہ اس مسجد کے ساتھ ایک مدرسہ تعمیر ہوا،جس میں سینکڑوں کی تعداد میں بچے جن میں کچھ بچیاں بھی شامل ہیں،حفظ قرآن کی سعادت حاصل کرچکے ہیں،اس مدرسے اور امام کے طریقہ کار کی برکت سے مزید دو مسجدیں بھی تعمیر ہوچکی ہیں،جن میں کالونی کے آس پاس رہائش پذیر لوگوں کے بچے دینی تعلیم حاصل کررہے ہیں۔
الحمد للہ اذان سے پہلےجو صلاة و سلام پڑھا جاتا تھا وہ ختم کیا جاچکا ہے،اسی طرح جمعہ کے دن حلقے کی صورت میں جو صلاة و سلام پڑھا جاتا تھا وہ بھی اسی ہفتے ختم کردیا گیا ہے،البتہ 33 سال کا عرصہ گزرنے کے بعد اس امام نے صرف دو کام اب تک جاری رکھے ہوئے ہیں:
1۔جمعہ کی نماز کی سنتوں کے بعد تین بار ہاتھ اٹھاکر دعاء منگوانا۔
2۔جنازے کے بعد کچھ دیر تقریر کرکے صرف ہاتھ اٹھاکر دوبارہ نیچے کرلینا۔
جس کی وجہ یہ ہے کہ مسلمان بھائی کا جنازہ ایک اہم چیز ہے،اگر امام تھوڑی بہت نرمی نہ کرے تو لوگ جنازہ کسی بدعتی امام سے پڑھوائیں گے۔
چونکہ اب ماحول تبدیل ہوچکا ہے،اہل بدعت اور تشیع اقلیت میں تبدیل ہوگئے ہیں،ہمارے ساتھ لوگ جڑچکے ہیں،اب میرے کچھ ساتھیوں کا کہنا ہے کہ مذکورہ دونوں امور ناجائز ہیں،اس لئے آپ اس سے احتراز کریں،میرا آپ سے سوال یہ ہے کہ اب مذکورہ صورت حال میں میرا ان دو معمولوں کو جاری رکھنا شرعا ٹھیک ہے یا نہیں؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ شریعت میں عمومی دعاء کی تاکید،تلقین اور فضیلت وارد ہوئی ہے اور حدیث میں دعاء کو عبادت کا مغز قرار دیا گیا ہے،لیکن نماز جنازہ کےبعد اجتماعی طور پر مروجہ طریقے کے مطابق دعاء کا اس طور پر اہتمام و التزام کرنا کہ ایسا نہ کرنے والوں پر نکیر کرنا اور انہیں طعن وتشنیع کا نشانہ بنانا عہد رسالت، عہد صحابہ، عہد تابعین و تبع تابعین میں سے کسی میں بھی ثابت نہیں ہے، حالانکہ نبی اکرم ﷺ نے اپنی حیات طیبہ میں متعدد جنازے پڑھائے اور حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے آپ علیہ السلام کے نماز جنازہ پڑھانے کا طریقہ کار، اس کی تکبیرات وغیرہ کو نقل فرمایا،لیکن نماز جنازہ کے بعد اجتماعی دعاء کہیں منقول نہیں ہے، اگر آپ علیہ الصلاة والسلام نےجنازے کے بعد دعامانگنے کا اہتمام فرمایا ہوتا تو اتنے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سے کم از کم کوئی ایک صحابی تواس کو ذکر کرتا، جبکہ اس بارے میں احادیث طیبہ اور آثارصحابہ میں کوئی ایک روایت بھی مذکور نہیں ہے،اسی لئے ملاعلی قاری رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کہ"جنازه کے بعد دعا کرنا نماز جنازہ میں اضافہ کرنے کے مشابہ ہے"۔
یہی حال سنتوں کے بعد مقتدیوں اور امام کا مل کر اجتماعی طور پر دعاء کرنے کا بھی ہے کہ عہد رسالت،عہدصحابہ،عہد تابعین و تبع تابعین میں سے کسی میں بھی اس کا ثبوت نہیں،حالانکہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیم اجمعین نے نماز سے متعلق حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک ایک عمل کو محفوظ کرنے اور اسے امت تک پہنچانے کا اہتمام فرمایا ہے،لیکن سنتوں کے بعد اجتماعی دعاء کسی سے بھی منقول نہیں ہے۔
لہذا جس طرح آپ نے دیگر بدعات و رسومات کا خاتمہ کیا اسی طرح ان دونوں امور سے متعلق بھی لوگوں کوسمجھائیں اور ان سے احتراز کریں،خصوصاً اب جبکہ اکثر لوگوں کی اصلاح ہوچکی ہے اور ان امور کا اہتمام نہ کرنے کی وجہ سے فتنے کا اندیشہ بھی تقریبا ختم ہوچکا ہے۔
البتہ پھر بھی فتنے کا اندیشہ ہو تو آپ احتیاط کے پیشِ نظر اس طرح تدریج سے کام لے سکتے ہیں کہ ابتداءً لوگوں کو ان دونوں اعمال کے حوالے سے شرعی حکم سمجھائیں اور عملاً ان اعمال کو جاری بھی رکھیں،جب یہ اطمئنان ہوجائے کہ لوگ مسئلہ سمجھ گئے ہیں تو باقاعدہ اعلان کئے بغیر کبھی ترک کردیں اور کبھی کرلیں،اس طرح آخر کار بالکلیہ ترک کردیں۔
حوالہ جات
"صحيح البخاري" (1/ 170):
" عن الأسود، قال: قال عبدﷲ: لا يجعل أحدكم للشيطان شيئا من صلاته يرى أن حقا عليه أن لا ينصرف إلا عن يمينه «لقد رأيت النبي صلى ﷲ عليه وسلم كثيرا ينصرف عن يساره» ".
قال الملا علی القاری رحمہ اللہ:" قال الطيبي: وفيه أن من أصر على أمر مندوب، وجعله عزما، ولم يعمل بالرخصة فقد أصاب منه الشيطان من الإضلال فكيف من أصر على بدعة أو منكر؟".
"مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح" (3/ 1213):
" ولا يدعو للميت بعد صلاة الجنازة؛ لأنه يشبه الزيادة في صلاة الجنازة".
"اعلاء السنن" (3/ 205):
و رحم ﷲ طائفة من المبتدعة في بعض أقطار الهند حیث واظبوا علی أن الإمام ومن معه یقومون بعد المکتوبة بعد قرائتهم اللهم أنت السلام و منك السلام الخ ثم إذا فرغوا من فعل السنن والنوافل یدعوالإمام عقب الفاتحة جهراً بدعاء مرةً ثانيةً والمقتدون یؤمنون علی ذلك وقدجری العمل منهم بذلك علی سبیل الالتزام والدوام حتی أن بعض العوام اعتقدوا أن الدعاء بعد السنن والنوافل باجتماع الإمام والمأمومین ضروري واجب حتی أنهم إذا وجدوا من الإمام تاخیراً لأجل اشتغاله بطویل السنن والنوافل اعترضوا علیه قائلین: إنا منتظرون للدعاء ثانیاً وهو یطیل صلاته وحتی أن متولي المساجد یجبرون الإمام الموظف علی ترویج هذا الدعاء المذکور بعد السنن والنوافل علی سبیل الالتزام، ومن لم یرض بذلك یعزلونه عن الإمامة و یطعنونه و لایصلون خلف من لایصنع بمثل صنیعهم، وأیم اﷲ! أن هذا أمر محدث في الدین …
و أیضاً ففي ذلك من الحرج ما لایخفی وأیضاً فقد مرّ أن المندوب ینقلب مکروهاً إذا رفع عن رتبته؛لأن التیمن مستحب في کل شيء من أمور العبادات لکن لماخشی ابن مسعود أن یعتقدوا وجوبه أشار إلی کراهته. فکیف بمن أصرّ علی بدعة أومنکر؟… کان ذلك بدعة في الدین محرمة".
محمد طارق
دارالافتاءجامعۃالرشید
11/محرم الحرام1446ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | محمد طارق غرفی | مفتیان | سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب |