03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
والدہ کی زندگی میں وفات پانے والے بیٹے کے حصے کا حکم
84254میراث کے مسائلمیراث کے متفرق مسائل

سوال

میں نے پہلے پوچھا تھا کہ وہ گھر جس میں، میں،میری بیٹی،اس کے بچے،میرا بیٹا اور بہو جن کے بچے نہیں ہیں رہائش پذیر ہیں،جبکہ میرا چھوٹا بیٹا جو رمضان میں وفات پاگیا ہے وہ بھی اس میں ہمارے ساتھ رہتا تھا،اب اس کی بیوی اور تین بچے ہمارے ساتھ رہتے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ یہ گھر والده کے نام پر ہے جو زندہ ہیں،آیا فوت ہونے والے بیٹے کی بیوہ اور اس کے تین بچوں کا اس گھر میں حصہ ہوگا،کیونکہ بیٹا والدہ کی زندگی میں فوت ہوگیا ہے؟

تنقیح:یہ گھر جس کے بارے  میں سوال کیا گیا ہے شوہر نے اس خاتون کے نام کیا تھا اور اس خاتون کے بقول اس نے زندگی میں اس گھر کے مالکانہ تصرفات اس کے حوالے کردیئے تھے،البتہ شوہر خود بھی اسی گھر میں رہائش پذیر تھا۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

میراث میں صرف ان ورثا کو حصہ ملتا ہے جو میت کے انتقال کے وقت زندہ ہوں، جن ورثاکا میت سے پہلے انتقال ہوجائے،میراث میں ان کا حصہ نہیں ہوتا،لہذا والدہ کی زندگی میں فوت ہونے والا بیٹا والدہ کی میراث میں حصے کا حقدار نہیں ہوگا اور بیٹوں کے ہوتے ہوئے پوتوں کو میراث میں حصہ نہیں ملتا،البتہ اگر والدہ ان(فوت ہونے والے بیٹے کی اولاد) کے ضرورت مند ہونے کی وجہ سے انہیں حصہ دینا چاہتی ہو تو زندگی میں اپنے مال میں سے انہیں کچھ دے دے یا پھر ان کے حق میں وصیت بھی کرسکتی ہے۔

البتہ یہ واضح رہے کہ زندگی میں اپنی جائیداد کسی کو دینا ہبہ کے حکم میں ہے اور ہبہ کے صحیح ہونے کے لئے ایک شرط یہ بھی ہے کہ جو چیز ہبہ کی جارہی ہو وہ واہب(ہبہ کرنے والے)کی ملک کے ساتھ مشغول نہ ہو،چونکہ مذکورہ مکان ہبہ کرتے وقت آپ کے شوہر خود بھی اس مکان میں رہائش پذیر تھے،جس کی وجہ سے ہبہ صحیح نہیں ہوا اور مذکورہ مکان آپ کے شوہر کی وفات کے بعد ان کے ترکہ(یعنی وہ سونا،چاندی،جائیداد یا ان کے علاوہ کوئی بھی چھوٹی بڑی چیز جو وفات کے وقت ان کی ملکیت میں تھی) میں شامل ہوکر ان کی وفات کے وقت زندہ ورثا میں شرعی حصوں کے مطابق تقسیم ہوگا۔

حوالہ جات

"البحر الرائق " (8/ 577):

قال – رحمهﷲ - (ولا توارث بين الغرقى والحرقى إلا إذا علم ترتيب الموت) أي إذا مات جماعة في الغرق أو الحرق ولا يدرى أيهم مات أولا جعلوا كأنهم ماتوا جميعا فيكون مال كل واحد منهم لورثته ولا يرث بعضهم بعضا إلا إذا عرف ترتيب موتهم فيرث المتأخر من المتقدم وهو قول أبي بكر وعمر وزيد وأحد الروايتين عن علي - رضي ﷲ عنه - وإنما كان كذلك؛ لأن الإرث يبنى على اليقين بسبب الاستحقاق وشرطه وهو حياة الوارث بعد موت المورث ولم يثبت ذلك فلا يرث بالشك".

"الدر المختار " (5/ 690):

"(وتتم) الهبة (بالقبض) الكامل (ولو الموهوب شاغلا لملك الواهب لا مشغولا به) والأصل أن الموهوب إن مشغولا بملك الواهب منع تمامها،وإن شاغلا لا، فلو وهب جرابا فيه طعام الواهب أو دارا فيها متاعه، أو دابة عليها سرجه وسلمها كذلك لا تصح".

محمد طارق

دارالافتاءجامعۃالرشید

11/محرم الحرام1446ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد طارق غرفی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب