84279 | میراث کے مسائل | میراث کے متفرق مسائل |
سوال
چار بھائی تھے احمد ، علی ، وقار اور سلیم، ہوا یوں کہ احمد اور علی کا پہلے انتقال ہوا پھر وقار کا انتقال ہوا اور کچھ سالوں بعد آخری بھائی سلیم کا بھی انتقال ہوا ، لیکن تیسرا جو بھائی (وقار) تھا ان کی کوئی اولاد نہیں تھی ۔
اب باقی تینوں بھائیوں کے بچوں کے درمیان وقارکی میراث پر تنازعہ کھڑا ہو گیا، سلیم کے بچے کہتے ہیں کہ سارا مال ہمارا حق ہے، کیونکہ وقار کی موت کے وقت سلیم زندہ تھے، جبکہ احمد اور علی کے بیٹے برابر تقسیم کا مطالبہ کرتے ہیں، لہذا وقار کا میراث کس طرح تقسیم ہوگا ؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
سوال میں ذکر کی گئی صورتِ حال کے مطابق وقار کے انتقال سے پہلے اس کے بھائی احمد اور علی کا انتقال ہو چکا تھا اور وراثت کا شرعی اصول یہ ہے کہ جو رشتہ دار مورِث (مرحوم)کی زندگی میں فوت ہو جائے وہ اس کی وراثت میں سے کسی حصہ کا حق دار نہیں ہوتا، لہذا صورت مسئولہ میں وقار کی تمام متروکہ جائیداد میں سے کفن دفن کے اخراجات نکالنے، واجب الاداء قرض ادا کرنے اور جائز وصیت پر عمل کرنے کے بعد جو ترکہ باقی بچے وہ تمام سلیم کے بچوں میں ان کے شرعی حصوں کے مطابق تقسیم ہو گا،کیونکہ ان کا والد سلیم اپنے بھائی کی وفات کے وقت حیات تھا اور بھائی کی موجودگی میں بھتیجے وارث نہیں ہوتے۔ اس لیےاحمد اور علی کی اولاد کا اپنے چچا وقار کی میراث پر دعوی کرنا جائز نہیں۔ البتہ اگر سلیم کی اولاد اپنی مرضی سے اپنے چچا زاد بھائیوں کو کچھ مال دیدے تو اس کے عوض ان کو اللہ تعالیٰ کے ہاں بہت بڑا اجروثواب ملے گا۔
حوالہ جات
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (6/ 758) دار الفكر-بيروت:
والمراد بالفرائض السهام المقدرة .............. وشروطه: ثلاثة: موت مورث حقيقة، أو حكما كمفقود، أو تقديرا كجنين فيه غرة ووجود وارثه عند موته حيا حقيقة أو تقديرا كالحمل والعلم بجهة إرثه.
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (6/ 758) دار الفكر-بيروت:
ثم العصبات بأنفسهم أربعة أصناف: جزء الميت ثم أصله ثم جزء أبيه ثم جزء جده (ويقدم الأقرب فالأقرب منهم) بهذا الترتيب فيقدم جزء الميت (كالابن ثم ابنه وإن سفل".
محمد نعمان خالد
دارالافتاء جامعة الرشیدکراچی
13/محرم الحرام 1446ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | محمد نعمان خالد | مفتیان | سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب |