021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
اسلام کا نام استعمال کر کے دھوکہ دینے کا حکم
83580جائز و ناجائزامور کا بیانجائز و ناجائز کے متفرق مسائل

سوال

 کیا مذکورہ بالا شخص کے لئے جائز ہے کہ وہ خود کو سپہ سالار ختم نبوت کہلوائے اور کہے، ختم نبوت کے سینٹرز کے لئے اپنے نام پر مریدوں سے اربوں روپے کی جائدادیں وصول کرے جن کا وہ خود متعدد ویڈیوز میں اعتراف کر چکا ہے۔ اور کیا ایسا شخص سپہ سالار ختم نبوت کے ٹائٹل کا حق دار ہو سکتا ہے جس نے آج تک عقیدہ ختم نبوت کے حوالے سے کوئی تقریر یا گفتگو نہ کی ہو اور اس موضوع پر کوئی آیت مبارکہ یا حدیث نہ سنائی ہو اور کیمروں کی موجودگی میں ہمارے بار باراصرار کے باوجود وہ کوئی بھی آیت یا حدیث سنانے میں ناکام رہا ہو اور جس کی متعدد ویڈیوز موجود ہوں کہ وہ آستینیں چڑھا کر نماز پڑھ رہا ہے اور زرق برق لباس، نمود و نمائش اور ظاہری حلیہ بھی قرآن و سنت کی ہماری سمجھ بوجھ سے مطابقت نہیں رکھتا۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

 ہمیں شریعت نے ظاہر کا مکلف بنایا ہے لہذاجو شخص اسلامی عقائد کا اعتراف کرے اُسے مسلمان سمجھا جائے گا۔ اس کے دل میں کیا ہے؟اس کا یہ معاملہ اللہ  رب العزت  کے ساتھ ہے، تاہم  ایک دینی راہنما کوضروری دینی علوم اور تقوی و اخلاص سے آراستہ ہونا چاہیے،ورنہ وہ اس  منصب کا اہل شمار  نہ ہو گا۔

کسی بھی قسم کی دھوکہ دہی اور جھوٹ بولنے ُ پر شریعت میں بہت سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں۔اور جب دین کے نام پر دھوکہ دیا جائے تو اس کی شناعت اور بھی بڑھ جاتی ہے۔احادیث مبارکہ میں جھوٹ بولنے اور دھوکہ بازی کو منافق کی علامت قرار دیا گیا ہے۔حضور اکرم ﷺ نے دھوکہ باز شخص کے متعلق فرمایا کہ قیامت کے دن ہر دھوکے باز کے لئے  ( بطورِ نشانی)  ایک جھنڈا ہوگا جس کے ذر یعے وہ پہچانا جائے گا ، کہا جائے گا : یہ فلاں کی دھوکے بازی ہے۔  لہذا جو کوئی بھی کسی  قسم کی دھوکہ دہی میں مبتلا ہو  اسےحضور  کے ان ارشادت کو سامنے رکھتے ہوئے  اس فعل سے توبہ اور آئندہ  اجتناب کی بھر پور کوشش کرنی  چاہیے۔

آستین چڑھا کر نماز پڑھنا مکروہ ہے۔اگر آستین اتنی اوپر چڑھائی ہوں کہ کہنیاں بھی کھل جائیں، تو شرعاًاس سے نماز میں کراہت آتی ہے۔فقہاء نے تو اس بات کی صراحت بھی کی ہے کہ وضوء کے بعد آستین نیچے کیے بغیراگرجلدی سے  نماز  شروع  کر دی تو نمازمیں ہی آہستہ آہستہ عمل قلیل سے  آستین   کونیچے کر لینا چاہیے تاکہ نماز کراہت  سے محفوظ رہے۔مردوں کے لیے لباس سے متعلق  فقہاء نے صراحت کی ہے کہ جو لباس، فاسقوں ،کافروں اور خواتین کے لباس  سے مشابہت رکھتا ہو وہ جائز نہیں۔مردوں کو انتہائی شوخ رنگ اور خصوصا  خالص سرخ رنگ کا لباس  استعمال کرنے سے اجتناب کرنا چاہیے۔ البتہ اگر اس میں کسی اور رنگ کی آمیزش ہو یا وہ دھاری دھار ہو تو مضائقہ نہیں ہے۔

حوالہ جات
روى الإمام الترمذي رحمه الله تعالى عن أبي بكر الصديق عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: "لا يدخل الجنة خب، ولا منان، ولا بخيل".(سنن الترمذي:3/ 511 )
روى الإمام مسلم رحمه الله تعالى عن عبد الله بن دينار أنه سمع عبد الله بن عمر يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إن الغادر ينصب الله له لواء يوم القيامة فيقال: ألا هذه غدرة فلان" .
 (صحيح مسلم:5/ 142 )
روى الإمام الترمذي رحمه الله تعالى عن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "المؤمن ‌غر ‌كريم، والفاجر خب لئيم".(سنن الترمذي:3/ 512 )
قال جمع من العلماء رحمهم الله تعالى:وإسلامه أن يأتي ‌بكلمة ‌الشهادة، ويتبرأ عن الأديان كلها سوى الإسلام. (الفتاوى الهندية:2/ 253)
قال العلامۃ ابن عابدین رحمه الله تعالى :قوله :(‌كمشمر كم أو ذيل) أي كما لو دخل في الصلاة وهو مشمر كمه أو ذيله، وأشار بذلك إلى أن الكراهة لا تختص بالكف وهو في الصلاة كما أفاده في شرح المنية، لكن قال في القنية: واختلف فيمن صلى وقد شمر كميه لعمل كان يعمله قبل الصلاة أو هيئته ذلك اهـ ومثله ما لو شمر للوضوء ثم عجل لإدراك الركعة مع الإمام. وإذا دخل في الصلاة كذلك وقلنا بالكراهة فهل الأفضل إرخاء كميه فيها بعمل قليل أو تركهما؟ لم أره: والأظهر الأول بدليل قوله الآتي ولو سقطت قلنسوته فإعادتها أفضل تأمل.( رد المحتار:1/ 640)
قال جمع من العلماء رحمهم الله تعالى:ولو صلى رافعا كميه إلى المرفقين كره. كذا في فتاوى قاضي خان.
( الفتاوى الهندية:1/ 106)
قال العلامۃ ابن عابدین رحمہ اللہ تعالی: قوله:( لا بأس بلبس ‌الثوب ‌الأحمر) وقد روي ذلك عن الإمام كما في الملتقط اهـ ط (قوله ومفاده أن الكراهة تنزيهية) لأن كلمة لا بأس تستعمل غالبا فيما تركه أولى......لم نجد نصا قطعيا لإثبات الحرمة ووجدنا النهي عن لبسه لعلة قامت بالفاعل من تشبه بالنساء أو بالأعاجم أو التكبر وبانتفاء العلة تزول الكراهة بإخلاص النية لإظهار نعمة الله تعالى وعروض الكراهة للصبغ بالنجس تزول بغسله، ووجدنا نص الإمام الأعظم على الجواز ودليلا قطعيا على الإباحة، وهو إطلاق الأمر بأخذ الزينة ووجدنا في الصحيحين موجبه.( رد المحتار:6/ 358)

ہارون  عبداللہ

  دارالافتاء جامعۃ الرشید،کراچی

   29  شعبان1445ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

ہارون عبداللہ بن عزیز الحق

مفتیان

مفتی محمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے