021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
"جس لڑکی سے میری منگنی ہوئی ہے اس سے میرا نکاح ہوا تواسے تین طلاق” کہنے کا حکم
84376طلاق کے احکامتین طلاق اور اس کے احکام

سوال

"جس لڑکی سے میری منگنی ہوئی ہے اس سے میرا نکاح ہوا تواسے تین طلاق" کہنے کا حکم

ایک لڑکے نے اپنے والد سے کسی بات پر تکرار کے دوران غصہ میں یہ الفاظ کہے ، بعد میں بہت زیادہ نادم ہے، الفاظ قسم یہ ہیں: " اگر ابو نے آج کے بعد میرے مستقبل کا کوئی فیصلہ کرنے کا سوچا یا کوشش کی یا کسی سے دعا بھی اگر کروائی اور اگر کبھی مجھے کوئی مشورہ دیایا خود دعا کی یا کسی سے مشورہ دلوایا یا ذہن سازی کرنے کی کوشش کی یا کروائی، نیز میرے فیوچر سے متعلق اپنی سوچ اور خواہش پورا کرنے کی کسی قسم کی بھی کوشش کی تو جس لڑکی سے میری منگنی ہوئی ہے، جیسے ہی اس کے ساتھ میر انکاح ہواسے تین طلاق، اس سےصرف میری پھوپھو کی بیٹی ہی مراد تھی اور میں نے اس کی نیت کی تھی، بس زبان سے اس کا نام نہیں لیا تھا ،اس واسطے یہ الفاظ استعمال کیے ۔ اب حالات یہ ہیں کہ جس منگنی کا اس لڑکے نے تذکرہ کیا کہ" جس لڑکی سے منگی ہوئی ہے " حالانکہ ابھی  صرف بات چیت ہوئی تھی، والدین راضی تھے، لڑکی راضی نہیں تھی، لڑکی کے والد نے کہا کہ آخری فیصلہ میری بیٹی کا ہو گا، اسے منگنی نہ سمجھنے پر ایک دلیل یہ بھی ہے کہ لڑکی کے والدین نے اپنے دوسرے دامادوں کو عید بھیجی تو اس لڑکےکی عید کو روک لیا کہ ابھی فائنل نہیں ہوا تو عید کیسے بھیجیں؟اب مفتی صاحب اس منگنی نہ ہونے پر منگنی سمجھ کر اس لڑکے کا قسم کھانا کیا معنی رکھتا ہے؟ نیز اگر یہ تعلیق ہو گئی ہے تولڑکے کے والد اور اس لڑکے کی خلاصی کی کیا صورت ہو گی؟

وضاحت: سائل نے فون پر بتایا کہ لڑکی کے والدین نے لڑکی کی مرضی پر معاملہ چھوڑا ہے اور ابھی تک لڑکی نے کوئی واضح بات نہیں بتائی، اس لیے ابھی فائنل بات نہیں ہوئی۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

فقہائے کرام رحمہم اللہ کی عبارات سے معلوم ہوتا ہے کہ طلاق کو کسی شرط کے ساتھ معلق کرنے کی صورت میں عورت کا متعین ہونا کافی ہے، اس کا نام وغیرہ ذکر کرنا ضروری نہیں، لہذا صورت ِ مسئولہ میں آپ کے کہے گئے الفاظ"جس لڑکی سے میری منگنی ہوئی ہے، جیسے ہی اس کے ساتھ میر انکاح ہواسے تین طلاق،اس سےصرف میری پھوپھو کی بیٹی ہی مراد تھی اور میں نے اسی کی نیت کی تھی"سے لڑکی کی واضح طور پر تعیین ہو چکی ہے، جو کہ شرط کے وقوع کے لیے کافی ہے، لہذااس کے لیے منگنی کا حتمی اور یقینی ہونا ضروری نہیں، لہذا صورتِ مسئولہ میں اگرآپ کے والد صاحب نے مستقبل میں آپ کی خیرخواہی اور بھلائی کے لیےکسی معاملے میں خود غوروفکر یا کسی سے مشورہ کیا تو  آپ کے اس لڑکی سے نکاح کرنے کی صورت میں اس کو فوراً تین طلاقیں واقع ہو جائیں گی اور اس کے بعد بغیر حلالہ کے نکاح بھی درست نہیں ہو گا۔

سوال میں ذکر کی گئی شرط سے بچنے کا اب کوئی طریقہ نہیں ہے، کیونکہ آپ نے یہ الفاظ کہے ہیں کہ "اگر میرا اس کے ساتھ نکاح ہوا تو اسے تین طلاق" اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کا اس لڑکی کے ساتھ نکاح منعقد ہونے کی صورت میں تین طلاقیں واقع ہوں گی، خواہ خود نکاح کیا جائے یا اپنے کسی وکیل  کے ذریعہ یا آپ کی اجازت کے بغیرکوئی شخص (جس کو فقہائے کرام رحمہم اللہ فضولی سے تعبیر کرتے ہیں) آپ کانکاح کرا دے اور آپ زبان سے قبول کیے بغیر  عملی طور پر نکاح کو قبول کر لیں تو بھی نکاح منعقد ہونے سے تین طلاق واقع ہو جائیں گی، نیزاب اس شرط سے رجوع بھی نہیں کیا جا سکتا، اس لیے اب یہی حل ہے کہ مذکورہ لڑکی کے ساتھ نکاح نہ کیا جائے، بلکہ کسی اور لڑکی کے ساتھ نکاح کر لیا جائے، تاکہ شرط واقع ہونے کی صورت میں تین طلاقیں واقع نہ ہوں۔

حوالہ جات
الهداية في شرح بداية المبتدي (1/ 243) دار احياء التراث العربي، بيروت:
" وإذا أضاف الطلاق إلى النكاح وقع عقيب النكاح مثل أن يقول لامرأة إن تزوجتك فأنت طالق أو كل امرأة أتزوجها فهي طالق " وقال الشافعي رحمه الله: لا يقع لقوله عليه الصلاة والسلام " لا طلاق قبل النكاح ". ولنا أن هذا تصرف يمين لوجود الشرط والجزاء فلا يشترط لصحته قيام الملك في الحال لأن الوقوع عند الشرط والملك متيقن به عنده وقبل ذلك أثره المنع وهو قائم بالمنصرف والحديث محمول على نفي التنجيز والحمل مأثور عن السلف كالشعبي والزهري وغيرهما.
المبسوط للسرخسي (6/ 105) دار المعرفة – بيروت:
لو قال: إذا كلمت فلانا، فأنت طالق ثم قال: إذا كلمت إنسانا، فأنت طالق فكلمت فلانا تطلق اثنتين؛ لأنه إنسان وفلان. وكذلك إذا قال: إن تزوجت فلانة، فهي طالق ثم قال: كل امرأة أتزوجها، فهي طالق فتزوج فلانة، تطلق اثنتين؛ لأنها فلانة وامرأة، والشيء الواحد يصلح شرطا للحنث في أيمان كثيرة.
مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر (2/ 741) دار إحياء التراث العربي:
(ومن وكل امرأته بطلاق نفسها لا يملك) الزوج الموكل (عزلها) ؛ لأنه يمين من جهته لما فيه من معنى اليمين، وهو تعليق بفعلها فلا يصح الرجوع عن اليمين وهو تمليك من جهتها؛ لأن الوكيل هو الذي يعمل لغيره وهي عاملة لنفسها فلا تكون وكيلة بخلاف الأجنبي كما في التبيين.
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (3/ 139) دار الكتب العلمية، بيروت:
وإن كان النصف معطوفا على الواحد كقولنا أحد وعشرون ونحو ذلك فكان ذلك تطليقتين على الجمع ولهذا كان في التخيير كذلك فكذلك في التعليق.
وبخلاف قوله إن دخلت الدار فأنت طالق واحدة لا بل ثنتين؛ لأن ذلك إيقاع الثلاث علة في زمان ما بعد الشرط؛ لأنه أوقع الواحدة ثم تدارك الغلط بإقامة الثنتين مقام الواحدة والرجوع عن الأول، والرجوع لم يصح؛ لأن تعليق الطلاق لا يحتمل الرجوع عنه، وصح إيقاع التطليقتين فكان إيقاع الثلاث بعد الشرط في زمان واحد كأنه قال: إن دخلت الدار فأنت طالق ثلاثا وههنا بخلافه.

محمد نعمان خالد

دارالافتاء جامعة الرشیدکراچی

21/محرم الحرام 1446ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد نعمان خالد

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے