84386 | طلاق کے احکام | طلاق دینے اورطلاق واقع ہونے کا بیان |
سوال
میرے شوہر نے میرے خاندان کے کسی فرد کے آنے پر مجھے کوئی طنزیہ جملہ کہا ، جس پر میں ناراض ہو گئی۔ اور 12 دن تک ناراض رہی ۔ ایک دن میرے شوہر مجھے منا رہے تھے تو میں نے کہا تم یہ کہو کہ اب ہمارے گھر یا آپ کے گھر سے کوئی بھی اس گھر میں آیا تو تمہیں طلاق ۔ اس نے کہا یہ نہیں کہتا البتہ یہ کہتا ہوں کہ اب میں نے کوئی بات کہی تو تمہیں طلاق پشتو میں اس کے الفاظ یہ تھے" ما سہ خبرہ وکڑہ نو تا لہ طلاق" جس سے ان کا مقصد تھا کہ اب طنزیہ جملہ نہیں کہوں گا، راضی ہو جاؤ۔
پھر انہوں نے یہ الفاظ دو دفعہ کہے گا یا تین دفعہ ؟مجھے شک ہے کہ تین دفعہ کہے جبکہ وہ قسم اٹھا رہے ہیں کہ میں نے دو دفعہ کہے ہیں ۔
تنقیح:
اس پر سب کا اتفاق ہے کہ شوہر کی مراد "ثہ خبرہ " سے ہر بات نہیں تھی ۔ ایک تو سیاق کلام سے ، ، دوسرا وہ یہ کہنے کے بعد بھی وہاں سے اٹھے نہیں بلکہ منا تےرہے تھے اور ان دونوں کے علاوہ جو وہاں موجود تھا اس کے نزدیک بھی وہ اسی متنازعہ بات کا کہ رہے تھےجس پر ناراضگی ہوئی۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
مذکورہ صورت میں چونکہ دلالت حال سے یہ متعین ہو رہا ہے کہ” کوئی بات “سے وہ طنزیہ بات ہی مراد تھی لہذا اس صورت میں اسی طرح مفہوم والی طنزیہ بات پر جو ناراضگی کا سبب بنی تھی طلاق معلق ہوگئی ۔جب بھی شوہر اس قسم کی طنزیہ بات کرے گا تو طلاق واقع ہو جائے گی۔
تین اور دو میں جو اختلاف ہے ، اگر آپ کو یقین ہے کہ تین دفعہ کہے ہیں ،اور شوہر کو یقین ہے کہ یہ لفظ دو دفعہ کہے ہیں ۔آپ کے پاس گواہ نہیں تو اگر وہ قسم کھا رہے ہیں تو قضاءا دو طلاقیں ہی معلق ہونگی ۔ البتہ آپ کے لیے دیانۃ تین طلاقیں ہی معلق سمجھی جائیں گی۔ اگر شرط پوری ہوئی شوہر نے یعنی آپ کے گھر والوں کے بارے میں طنزیہ بات کی تو پھر آپ کے حق میں تین طلاقیں ہی واقع ہوں گی۔
چونکہ انسان کمزور ہے اور بھول ہو ہی جاتی ہے، تو اس معلق طلاق کو ختم کرنے کاطریقہ یہ ہے کہ شوہر آپ کو ایک طلاق دے دے،آپ پھر ان سے الگ ہو جائیں اور عدت کے دوران وہ رجوع نہ کرے، نہ زبانی اور نہ ہی اپنے عمل سے ۔ عدت کے بعد جب یہ رجوع کا اختیار ختم ہو جائے اور آپ اس کے لیے اجنبیہ بن جائیں تووہ اس وقت آپ کو ویسی طنزیہ باتیں کہ دیں ،قسم بھی ختم ہو جائے گی اور طلاق بھی واقع نہ ہو گی۔اس کے بعد گواہاں کی موجودگی میں نئے مہر کے ساتھ دوبارہ نکاح کر لیں۔
طلاق مباح چیزوں میں انتہائی ناپسندیدہ چیز ہے۔چھوٹی چھوٹی باتوں میں اس کا تذکرہ کرنا انتہائی غیرسنجیدہ عمل ہے۔اس واقعہ سے سبق لیں ،اگر یہ طلاق واقع ہو جاتی تو آپ کی زندگیاں ہمیشہ کے لیے جہنم بن جاتی ۔اپنی اور اپنے بچوں کی زندگیوں پررحم کریں، ماں باپ کےجھگڑوں میں بچے نفسیاتی مریض بن جاتےہیں۔ چھوٹی موٹی باتیں ہر گھر میں ہوتی ہیں، ان کے لیے تین دن سے زائد عرصے تک ناراض رہنا خود ایک ناجائز عمل ہے۔بات بات پے طنز کرنے سے گریز کریں ۔اپنے مسائل آرام اور تسلی سے حل کریں ، ایک کی غلطی ہو اور وہ نہ مانے تو اس موقعے پے دوسرا درگزر کر کے معاملے کو حل کرلے ۔اللہ تعالی سے اپنے تعلقات کو بہتر کرنے کی دعائیں کریں ۔
حوالہ جات
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 376):
[فروع] في أيمان الفتح ما لفظه، وقد عرف في الطلاق أنه لو قال: إن دخلت الدار فأنت طالق، إن دخلت الدار فأنت طالق، إن دخلت الدار فأنت طالق وقع الثلاث، وأقره المصنف ثمة
قوله: )في أيمان الفتح) خبر عن ما، وليس نعتاً لفروع؛ لأن الفرع الأول فقط في أيمان الفتح ح (قوله: وقع الثلاث) يعني بدخول واحد، كما تدل عليه عبارة أيمان الفتح، حيث قال: ولو قال لامرأته: والله لا أقربك ثم قال: والله لا أقربك، فقربها مرةً لزمه كفارتان. اهـ. والظاهر أنه إن نوى التأكيد يدين ح.
قلت: وتصوير المسألة بما إذا ذكر لكل شرط جزاءً، فلو اقتصر على جزء واحد. ففي البزازية إن دخلت هذه الدار إن دخلت هذه الدار فعبدي حر، وهما واحد، فالقياس عدم الحنث حتى تدخل دخلتين فيها، والاستحسان يحنث بدخول واحد، ويجعل الباقي تكراراً وإعادةً اهـ ثم ذكر إشكالاً وجوابه، وذكر عبارته بتمامها في البحر عند قوله: والملك يشترط لآخر الشرطين، وقوله: وهما واحد: أي الداران في الموضعين واحد، بخلاف ما لو أشار إلى دارين فلا بد من دخولين كما هو ظاهر
حاشية ابن عابدين = (3/ 785):
والحاصل: أن الحلف بطلاق ونحوه تعتبر فيه نية الحالف ظالما أو مظلوما إذا لم ينو خلاف الظاهر كما مر عن الخانية، فلا تطلق زوجته لا قضاء ولا ديانة، بل يأثم لو ظالما إثم الغموس، ولو نوى خلاف الظاهر، فكذلك لكن تعتبر نية ديانة فقط، فلا يصدقه القاضي بل يحكم عليه بوقوع الطلاق إلا إذا كان مظلوما على قول الخصاف ويوافقه ما قدمه الشارح أول الطلاق من أنه لو نوى الطلاق عن وثاق دين إن لم يقرنه بعدد ولو مكرها صدق قضاء أيضا
حاشية ابن عابدين » (3/ 251):
والمرأة كالقاضي إذا سمعته أو أخبرها عدل لا يحل له تمكينه. والفتوى على أنه ليس لها قتله، ولا تقتل نفسها بل تفدي نفسها بمال أو تهرب، كما أنه ليس له قتلها إذا حرمت عليه وكلما هرب ردته بالسحر. وفي البزازية عن الأوزجندي أنها ترفع الأمر للقاضي، فإنه حلف ولا بينة لها فالإثم عليه. اهـ. قلت: أي إذا لم تقدر على الفداء أو الهرب ولا على منعه عنها فلا ينافي ما قبله
محمد سعد ذاكر
دارالافتاء جامعہ الرشید،کراچی
21 /محرم الحرام /1446ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | محمد سعد ذاکر بن ذاکر حسین | مفتیان | سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب |