84398 | امانت ودیعت اورعاریت کے احکام | متفرق مسائل |
سوال
ایک سنار نے مجھ سے 2002ء میں سوا تین تولے سونے کا ہارسیٹ لیا، یہ سیٹ امانت کے طور پر لیا کہ وہ اسی ڈیزائن کا سیٹ گاہک کو بنا کر دینے کے بعد دس دن کے اندر یہ سیٹ واپس کر دے گا، لیکن اس نے آج تک وہ سیٹ واپس نہیں کیا، میں کئی سال تک اس سے اپنا سیٹ مانگتا رہا، مگر اس نے وہ سیٹ واپس نہ کیا، جب بھی اس میں کو کہتا کہ مجھے ضرورت ہے، میرا سونا واپس کرو، تو وہ پانچ ہزار اور کبھی دس ہزار دے دیتا اور کہتا کہ اس سے اپنا کام چلاؤ، جب میں آپ کو اپنا سونا واپس کروں گا تو اس وقت یہ پیسے کاٹ لوں گا، آخر اس شخص نے 2020ء اور 2021ء تک مجھے مختلف تاریخوں میں تھوڑے تھوڑے پیسے کر ایک لاکھ بارہ ہزار روپے ادا کیے، میں ایک غریب آدمی ہوں، اتنی جمع پونجی ڈوبتے دیکھ کر اس سے تھوڑے تھوڑے پیسے لیتا رہا، میرے پاس اتنے پیسے نہیں ہیں کہ تھانے اور کچہری میں مقدمہ دائر کر سکوں، اس سلسلے میں آپ سے رہنمائی کی درخواست ہے۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
سوال میں ذکر کی گئی صورتِ حال کے مطابق چونکہ سنار نے یہ سونا بطورِ امانت لیا تھا اور دس دن کے اندر واپس کرنے کا وعدہ کیا تھا، اس لیے اس پر لازم تھا کہ وہ سونے کا سیٹ دس دن کے اندر واپس کرتا، بلاوجہ اتنا عرصہ تاخیر کرنے سے وہ شخص سخت گناہ گار ہوا ہے، حدیثِ پاک میں کسی مسلمان کا مال ناحق استعمال کرنے پر بہت سخت وعیدیں آئی ہیں اور دنیا میں مالی حق ادا نہ کرنے کی صورت میں آخرت کا عذاب اس سے بھی سخت ہے۔
لہذا شخصِ مذکور پر لازم ہے کہ وہ جلد از جلد آپ کاسونا واپس کرے اور جو رقم اس نے آپ کی ضرورت پوری کرنے کے لیے آپ کو دی ہے وہ رقم آپ کے ذمہ قرض ہے، سونا وصول ہونے پر اس کی ادائیگی آپ کے ذمہ لازم ہے۔ باقی اگر وہ آپ کو سونا نہیں دیتا تو آپ علاقے کے باثر افراد کی پنچایت کے ذریعہ اس پر دباؤ ڈال سکتے ہیں، نیز اتنی مالیت کی اس کی کسی اور چیز پر قبضہ کر کے اس کو بیچ کر بھی اپنا حق وصول کرسکتے ہیں۔
حوالہ جات
القراّن الكريم [النساء: 29]:
{ يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ إِلَّا أَنْ تَكُونَ تِجَارَةً عَنْ تَرَاضٍ مِنْكُمْ}
صحيح البخاري (7/ 100) دار طوق النجاة:
عن أبي بكرة رضي الله عنه، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: " إن الزمان قد استدار كهيئته يوم خلق الله السموات والأرض، السنة اثنا عشر شهرا، منها أربعة حرم، ثلاث متواليات: ذو القعدة، وذو الحجة، والمحرم، ورجب مضر الذي بين جمادى وشعبان، أي شهر هذا؟ " قلنا: الله ورسوله أعلم، فسكت حتى ظننا أنه سيسميه بغير اسمه، قال: «أليس ذا الحجة؟» قلنا: بلى، قال: «أي بلد هذا؟» قلنا: الله ورسوله أعلم، فسكت حتى ظننا أنه سيسميه بغير اسمه، قال: «أليس البلدة؟» قلنا: بلى، قال: «فأي يوم هذا؟» قلنا: الله ورسوله أعلم، فسكت حتى ظننا أنه سيسميه بغير اسمه، قال: «أليس يوم النحر؟» قلنا: بلى، قال: " فإن دماءكم وأموالكم - قال محمد: وأحسبه قال - وأعراضكم عليكم حرام، كحرمة يومكم هذا، في بلدكم هذا، في شهركم هذا، وستلقون ربكم، فيسألكم عن أعمالكم.
فتح القدير للكمال ابن الهمام (7/ 157):
(قوله ولو استقرض فلوسا فكسدت عند أبي حنيفة - رحمه الله - يرد مثلها) عددا اتفقت الروايات عنه بذلك، وأما إذا استقرض دراهم غالبة الغش فقال أبو يوسف في قياس قول أبي حنيفة: عليه مثلها، ولست أروي ذلك عنه، ولكن الرواية في الفلوس إذا أقرضها ثم كسدت. وقال أبو يوسف: عليه قيمتها من الذهب يوم القرض في الفلوس والدراهم، وقال محمد: عليه قيمتها في آخر وقت إنفاقها.
محمد نعمان خالد
دارالافتاء جامعة الرشیدکراچی
22/محرم الحرام 1446ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | محمد نعمان خالد | مفتیان | سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب |