84460 | خرید و فروخت کے احکام | خرید و فروخت کے جدید اور متفرق مسائل |
سوال
کیا پاکستان سٹاک ایکسچینج میں آن لائن شیئرز خریدنا جائز ہے اور کس کمپنی کے شیئرز خریدنا جائز ہے ؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
اسٹاک ایکسچینج میں شیئرز کا کاروبار درج ذیل شرائط کے ساتھ جائز ہے:
1۔ جس کمپنی کے شیئرز خریدنا چاہتے ہیں، اس کا کاروبار حلال ہو، اگر کمپنی کا کاروبا غیر شرعی ہو ،جیسے:مروجہ غیر اسلامی بینک،انشورنس ادارے،شراب بنانے والی کمپنیاں یا ایسے ادارے جن کے کاروبار کی بنیاد سود پر ہو تو ان کے شیئرز کی خرید وفروخت جائز نہیں۔
2۔ اس کمپنی کے کاروبارکا حقیقت میں آغاز ہوچکا ہو اور اس کمپنی کی املاک،مثلا عمارت اور مشینری وغیرہ وجود میں آچکی ہوں،اگر کمپنی صرف منصوبہ بندی اور نقد اثاثوں تک محدود ہو اور حقیقت میں کاروبار کا آغاز نہ ہوا ہو تو شیئرز کو صرف ان کی اصل قیمت ( Face Value) پر خریدنا یا بیچنا جائز ہے، اس سے کم و بیش پر خریدنا اور بیچنا جائز نہیں۔
3۔ نفع و نقصان دونوں میں شرکت ہو، یعنی اگر کمپنی کو نفع ہو تو شیئرز کے خریدار بھی نفع میں شریک ہوں گے اور اگر نقصان ہو تو اپنے سرمائے کے تناسب سے نقصان میں بھی شریک ہوں گے۔
4۔ نفع فیصد ی تناسب کے اعتبار سے طے ہو، یعنی نفع کی ماہانہ یا سالانہ کوئی خاص رقم یقینی طور پر مقرر نہ ہو، بلکہ فیصدی تناسب کے حساب سے نفع مقرر کیا گیا ہو کہ جتنا نفع ہوگا، اس میں سے اتنے فیصد کمپنی کا ہوگا اور اتنے فیصد شیئر ہولڈر میں تقسیم کیاجائے گا۔
5۔ شیئرز کی خریدوفروخت کرتے وقت اس بات کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے کہ کمپنی کا اصل کاروبار حلال ہونے کے ساتھ ساتھ وہ ضمنی طور پر بھی کسی ناجائز کام میں ملوث نہ ہو اور اس ضمنی کام سے حاصل ہونے والی آمدنی کا تناسب اس کی مجموعی آمدنی میں معتد بہ مثلا ً: پانچ فیصد نہ ہو ۔( جیسا کہ اس کی پابندی آج کل کے اسلامی مالیاتی اداروں میں کروائی جارہی ہے )
جوکمپنی ضمنی طور پر کسی ناجائز کام میں ملوث ہو اس کے شئیرز کی خرید و فروخت سے احتراز بہتر ہے،تاہم اس کے شئیرز خریدنے کی اس شرط کے ساتھ گنجائش ہے کہ خریدار کمپنی کو ناجائز اور حرام معاملات سے منع کرنے کی ہرممکن کوشش کرے گا، اور خصوصاً کمپنی کے سالانہ اجلاس میں بھی یہ آواز اٹھائے گا کہ کمپنی ناجائز اور حرام معاملہ نہ کرے اور کم از کم ہمارا سرمایہ کسی حرام اور ناجائز کاروبار میں نہ لگائے۔
6۔ اگر ایسی کمپنی کے شئیرز خریدے جائیں جو ضمنی طور پر کسی ناجائز کام میں ملوث ہو تو جب کمپنی سے سالانہ نفع وصول ہو تو شیئرز رکھنے والا اس کمپنی کی بیلنس شیٹ میں دیکھے کہ کمپنی نے اس ناجائز ضمنی معاملہ سے کتنے فیصد سرمایہ ناجائز کاروبار میں لگا کر نفع حاصل کیا ہے، پھر آمدنی کا اتنے فیصد حصہ اپنے حاصل شدہ نفع سے صدقہ کردے۔
7۔ شیئرز ہولڈر اس بات کا بھی لحاظ رکھے کہ جس کمپنی کے شیئرز خریدے، اس کے مجموعی سرمائے کے تناسب میں اس کمپنی کے سودی قرضوں کی مقدار بہت زیادہ ( مثلا تینتیس فیصد 33٪ سے زیادہ) نہ ہو۔
8۔ جو شیئرز خریدا جارہا ہو، اس کے پیچھے موجود خالص نقد اثاثوں (Net liquid assets) کی مقدار اس شیئر کی بازاری قیمت (Market value )سے کم ہو۔
9۔اگر شیئرز کو ان کی قیمت اسمیہ سے کم یا زیادہ پر خریدا یا فروخت کیا جارہا ہو تو شیئرز جس کمپنی کے ہوں، اس کے پاس نقد اثاثوں (Current Assets ) کے ساتھ ساتھ ایک معتدبہ مقدار جامد اثاثے بھی موجود ہوں۔ ( مثلاً: بیس فیصد یا اس سے زائد جامد اثاثے ہوں)
10۔ شیئرز کی خریدفروخت کے صحیح ہونے کے لئے ایک شرط یہ بھی ہے کہ شیئرز خریدنے کے بعد شیئر ہولڈرز ان شیئرز پر قبضہ کرے، اس کے بعد ان کو فروخت کرے، شیئرز پر قبضہ کئے بغیر انہیں آگے فروخت کرنا شرعاً درست نہیں، جس کی وضاحت درج ذیل ہے:
اسٹاک ایکسچینج میں ڈے ٹریڈنگ(ایک دن شیئرز خرید کر اسی دن بیچنا) میں حاضر سودے کی جو صورت رائج ہے، وہ یہ ہے کہ حاضر سودے میں سودا ہوتے ہی اس کا اندراج فوراً ہیKAT﴿ Karachi Automated Trading ﴾ میں ہوجاتا ہے، جو اسٹاک ایکسچینج میں ہونے والے سودوں کا کمپیوٹرائز ریکارڈ ہوتا ہے، آج کل ہر سودے کے دو کاروباری دنوں کے بعد خریدار کو طے شدہ قیمت ادا کرنی ہوتی ہے اور بیچنے والے کو بیچے ہوئے حصص کی ڈیلیوری دینی ہوتی ہے۔ ( جبکہ پہلے اس میں تین دن لگتے تھے ) جس کی صورت یہ ہوتی ہے کہ متعلقہ کمپنی کے ریکارڈ میں سی ڈی سی (Central Depository Company) کے ذریعے خریدے گئے شیئرز خریدار کے نام منتقل کیے جاتے ہیں، اسٹاک ایکسچینج کی اصطلاح میں اس کو ڈیلیوری اور قبضہ کہا جاتا ہے۔
لہذا جب تک خریدے گئے شیئرز سی ڈی سی کے ذریعہ متعلقہ کمپنی کے ریکارڈ میں خریدار کے نام منتقل نہیں ہوجاتے، انہیں آگے فروخت کرنا شرعاً جائز نہیں، کیونکہ شرعاً کسی بھی چیز کو آگے بیچنے کے لیے اس پر قبضہ شرط ہے۔
اسٹاک ایکسچینج کے مروجہ طریق کار کے مطابق اگر چہ شیئرز خریدتے وقت KAT میں ان کا اندراج ہو جاتا ہے، اور شیئرزکا رسک خریدار کو منتقل ہوجاتا ہے،یعنی ان شئیرز کا نفع و نقصان اسی کا ہوتا ہے، لیکن چونکہ شئیرز کی خرید و فروخت درحقیقت کمپنی کے مشاع(غیر متعین) حصے کی خرید وفروخت ہے اور مشاع حصے کی خرید و فروخت کی صورت میں محض اس کے رسک کا خریدار کی طرف منتقل ہونا قبضے کے لئے کافی نہیں ہے،جبکہ اس پر حسی قبضہ بھی ممکن نہیں،اس لئے قبض حکمی یعنی تخلیہ کا پایا جانا ضروری ہے اور اسٹاک ایکسچینج کے موجودہ قواعد وضوابط کے مطالعے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ سی ڈی سی کے ذریعے کمپنی کے ریکارڈ میں شئیرز خریدار کے نام منتقل ہونے سے پہلے تخلیہ نہیں پایا جاتا ہے، لہذا مذکورہ صورت میں سی ڈی سی کے ذریعہ متعلقہ کمپنی کے ریکارڈ میں بیچے گئے شئیرز خریدار کے نام منتقل ہونے سے پہلے انہیں آگے فروخت کرنا جائز نہیں ہے۔
خلاصہ یہ کہ حاضر سودے کی صورت میں بھی خریدے گئے شئیرز سی ڈی سی کے ذریعہ متعلقہ کمپنی کے ریکارڈ میں خریدار کے نام منتقل ہونے(یعنی ڈیلیوری) سے پہلے آگے بیچنا جائز نہیں ہیں۔
12۔ فارورڈ سیل (Forward Trading) یا فیوچر سیل (Future Trading ) کی جتنی صورتیں اسٹاک ایکسچینج میں رائج ہیں، وہ اپنی موجودہ شکل میں شرعا ناجائز ہیں۔
13۔ اسٹاک ایکسچینج میں رائج بدلہ کے معاملات (جس کا مطلب یہ ہے کہ ایک شخص بہت سے شیئرزخرید لیتا ہے، مگر اس کے پاس قیمت کی ادائیگی کے لیے رقم موجودنہیں ہوتی، اس لیے وہ شخص یہی شیئرز کسی دوسرے شخص کو اس شرط پر بیچتا ہے کہ وہ کچھ عرصے بعدطے شدہ وقت پر زیادہ قیمت پر واپس خرید لے گا) بھی قبضے سے پہلے فروخت اور زیادہ قیمت پر واپس خریدنے کی شرط پر بیچنے کی وجہ سے ناجائز ہے۔
14۔ اسٹاک ایکسچینج میں رائج شئیرز کی بلینک سیل (Blank Sale) اور شارٹ سیل(Short Sale) بھی شرعا ناجائز ہے،کیونکہ ان دونوں میں شئیرز فروخت کنندہ کی ملکیت میں نہیں ہوتے اور غیر مملوک چیز کی خرید وفروخت شرعا ممنوع ہے۔
ان دونوں(Blank Sale ,Short Sale) میں فرق صرف اتنا ہے کہ شارٹ سیل میں فروخت کرنے والے جو شئیرز فروخت کئے ہوتے ہیں مقررہ وقت پر ان کی خریداری کے لئے پیسوں کا انتظام کررکھا ہوتا ہے،جبکہ بلینک سیل میں ایسا کوئی انتظام بھی نہیں ہوتا،بقیہ دونوں میں فروخت کرتے وقت شئیرز فروخت کرنے والے کی ملک میں نہیں ہوتے۔
حوالہ جات
"سنن الترمذي " (2/ 526):
"حدثنا عمرو بن شعيب، قال: حدثني أبي، عن أبيه، حتى ذكر عبدﷲ بن عمرو أن رسول ﷲ صلى ﷲ عليه وسلم قال: لا يحل سلف وبيع، ولا شرطان في بيع، ولا ربح ما لم يضمن، ولا بيع ما ليس عندك".
"بدائع الصنائع " (6/ 120):
يجوز بيع المشاع وكذا هبة المشاع فيما لا يقسم وشرطه هو القبض والشيوع لا يمنع القبض لأنه يحصل قابضا للنصف المشاع بتخلية الكل ولهذا جازت هبة المشاع فيما لا يقسم وإن كان القبض فيها شرطا لثبوت الملك كذا هذا.
"صحيح مسلم" (3/ 1159):
"عن ابن عباس، أن رسول ﷲ صلى ﷲ عليه وسلم قال: «من ابتاع طعاما فلا يبعه حتى يستوفيه»، قال ابن عباس: وأحسب كل شيء مثله".
"المعايير الشرعية " (ص:568):
"المساھمة او التعامل (الاستثمار أو المتاجرة) فی أسھم شرکات، أصل نشاطھا حلال ولکنھا تودع أو تقترض بفائدة.
الأصل حرمة الساھمة والتعامل(الاستثمار أو المتاجرة) فی أسھم شرکات تتعامل أحیانا بالربا أو نحوہ من المحرمات مع کون أصل نشاطھامباحا ویستثنی من ھذا الحکم المساھمة أو التعامل بالشروط الآتیة:
أن لا تنص الشرکة فی نظامھا الأساسی أن من أھدافھا التعامل بالربا أو التعامل بالمحرمات کالخنزیر و نحوہ.
أن لایبلغ إجمالی المبلغ المقترض بالربا سواء، أکان قرضا ،طویل الأجل أم قرضا قصیر الأجل۳۰٪ من القیمة السوقیة لمجموع أسھم الشرکة ،علما بأن الاقتراض بالربا حرام،مھما کان مبلغہ.
أن لایبلغ إجمالی المبلغ المودع بالربا،سواء أکانت مدة الإیداع قصیرة أو متوسطة أو طویلة ۳۰٪ من القیمة السوقیة لمجموع أسھم الشرکة علما بأن الإیداع بالربا حرام ،مھما کان مبلغہ".
" المعايير الشرعية " (ص:581):
"مستند استثناء التعامل باسھم شرکات، اصل نشاطھا حلال ولکن تودع او تقترض بالفائدة،ھو تطبیق رفع الحرج والحاجة العامة وعموم البلوی ومراعاة قواعد الکثرة والقلة والغلبة وجواز التعامل مع من کان غالب اموالہ حلالا".
محمد طارق
دارالافتاءجامعۃالرشید
24/محرم الحرام1446ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | محمد طارق غرفی | مفتیان | آفتاب احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب / سعید احمد حسن صاحب |