84369 | زکوة کابیان | مستحقین زکوة کا بیان |
سوال
اگر کوئی فلاحی ادارہ ایسی فیملی کو زکوة دے جو ظاہری طور پر اپنی طرزِ زندگی(لائف اسٹائل) سے زکوۃ کی حق دار نہیں لگ رہی تو آیا زکوۃ دینےوالے کی زکوۃ ادا ہوجائے گی؟
تنقیح: سوال کا مقصد یہ ہے کہ ایک فیملی ہے جو کافی عرصے سے معاشی تنگی کا شکار ہے،لیکن ان کا لائف اسٹائل ایسا ہے کہ بہ ظاہر وہ زکوة کے مستحق نہیں معلوم ہوتے،اپنے اسی لائف اسٹائل کی وجہ سے وہ بیس لاکھ کے مقروض ہوچکے ہیں۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
واضح رہے کہ ایسے لوگوں کو جو صاحبِ نصاب نہ ہوں(یعنی اس کی ملکیت میں سونا،چاندی،نقدی،مال تجارت اور ضرورت سے زائد سامان میں سے کوئی ایک چیز یا ان میں سے بعض یا سب کا مجموعہ اتنی مقدار میں نہ ہو جس کی قیمت ساڑھے باون تولہ (۳۵ء ۶۱۲ گرام )چاندی کے برابر ہو) زکوة دینا جائز ہے۔
لہذا اگر اس فیملی کے افراد مقروض ہونے کی وجہ سے مذکورہ بالا تفصیل کے مطابق صاحب نصاب نہ ہوں تو اصولی طور پر انہیں زکوة دینا جائز ہے،لیکن ان کی بہ نسبت ایسے لوگوں کو دینا زیادہ بہتر ہے جو بنیادی ضروریاتِ زندگی کے حوالے سے مشکلات سے دوچار ہوں،کیونکہ ایسے لوگوں کو زکوة دینا مزاج شریعت سے میل نہیں کھاتا جو مقروض ہونے کی وجہ سے اگرچہ صاحبِ نصاب نہ ہوں،لیکن وہ زکوة کی اس رقم کو قرضوں کی ادائیگی کے بجائے اپنی عیاشیوں میں صرف کریں۔
حوالہ جات
"الفتاوی الھندیۃ"(189/1):
"ولا یجوز الدفع الی من یملک نصابا أی مال کان دنانیر، أو دراہم، أو سوائم، أو عروضا للتجارۃ أو لغیرالتجارۃ فاضلا عن حاجتہ الأصلیۃ فی جمیع السنۃ کذا فی الزاہدی".
"صحيح البخاري" (2/ 104):
"عن ابن عباس رضي ﷲ عنهما: أن النبي صلى ﷲ عليه وسلم بعث معاذا رضي ﷲ عنه إلى اليمن، فقال: «ادعهم إلى شهادة أن لا إله إلا ﷲ، وأني رسولﷲ، فإن هم أطاعوا لذلك، فأعلمهم أن ﷲ قد افترض عليهم خمس صلوات في كل يوم وليلة، فإن هم أطاعوا لذلك، فأعلمهم أن ﷲافترض عليهم صدقة في أموالهم تؤخذ من أغنيائهم وترد على فقرائهم»".
"البحر الرائق " (2/ 258):
"(قوله هو الفقير والمسكين، وهو أسوأ حالا من الفقير) أي المصرف الفقير والمسكين والمسكين أدنى حالا وفرق بينهما في الهداية وغيرها بأن الفقير من له أدنى شيء والمسكين من لا شيء له وقيل على العكس ولكل وجه والأول هو الأصح، وهو المذهب كذا في الكافي والأولى أن يفسر الفقير بمن له ما دون النصاب كما في النقاية أخذا من قولهم يجوز دفع الزكاة إلى من يملك ما دون النصاب أو قدر نصاب غير تام، وهو مستغرق في الحاجة".
"البحر الرائق " (2/ 260):
"(قوله :والمديون) أطلقه كالقدوري وقيده في الكافي بأن لا يملك نصابا فاضلا عن دينه؛ لأنه المراد بالغارم في الآية، وهو في اللغة من عليه دين، ولا يجد قضاء كما ذكره القتبي".
محمد طارق
دارالافتاءجامعۃالرشید
24/محرم الحرام1446ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | محمد طارق غرفی | مفتیان | سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب |