84371 | زکوة کابیان | مستحقین زکوة کا بیان |
سوال
زکوۃکی رقم اگر سید کو دی جائے تو اس کے لئے کیا طریقہ کار اور حکم ہوگا؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے کہ:
"یہ صدقات (زکوۃ اور صدقاتِ واجبہ ) لوگوں کے مالوں کا میل کچیل ہیں، ان کے ذریعہ لوگوں کے نفوس اور اموال پاک ہوتے ہیں اور بلاشبہ یہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے لیے اور آلِ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کے لیےحلال نہیں ہے"۔
اس لئے سید کو زکوۃ دینا جائز نہیں ہے، اگر سید غریب اور محتاج ہے تو صاحبِ حیثیت مال داروں پر لازم ہے کہ وہ سادات کی امداد زکوۃ اور صدقاتِ واجبہ کے علاوہ رقم سے کریں اور ان کو مصیبت اور تکلیف سے نجات دلائیں ، یہ بڑے اجر وثواب کا کام اور حضور اکرم ﷺ کے ساتھ محبت کی دلیل ہے۔
حوالہ جات
"صحيح مسلم" (2/ 754):
"ثم قال لنا «إن هذه الصدقات إنما هي أوساخ الناس، وإنها لا تحل لمحمد، ولا لآل محمد»".
"الدر المختار " (2/ 350):
"(و) لا إلى (بني هاشم) إلا من أبطل النص قرابته وهم بنو لهب، فتحل لمن أسلم منهم كما تحل لبني المطلب. ثم ظاهر المذهب إطلاق المنع.....
(وجازت التطوعات من الصدقات و) غلة (الأوقاف لهم) أي لبني هاشم، سواء سماهم الواقف أو لا على ما هو الحق كما حققه في الفتح".
محمد طارق
دارالافتاءجامعۃالرشید
24/محرم الحرام1446ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | محمد طارق غرفی | مفتیان | سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب |