021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
موٹرسائیکل میں بیع سلم اورمسلم فیہ کی ضمانت لینے کا حکم (جدید)
84441خرید و فروخت کے احکامسلم اور آرڈر پر بنوانے کے مسائل

سوال

فریقِ اول قاری عبدالغفور اور قاری محمود اللہ(خریدار) کا فریقِ دوم شاکر ولد احسان  (فروخت کنندہ) کے ساتھ بائیک کا سودا ہوا، بعد میں شاکر نے 34بائیکوں میں سے فریقِ اول کو چھ عدد بائیک دینے کے لیے سید کرم شاہ کو ضامن بننے کا کہا، یعنی فریق اول کو چھ عدد بائیک سید کرم شاہ دے گا،سید کرم شاہ نے اپنی رضامندی اور خوشی سے چھ عدد بائیک دینے کی ضمانت قبول کر لی اور کہا کہ میں فروری 2024ء تک چھ عددبائیک دے دوں گا، اگر میں خدانخواستہ بائیک نہ دے سکا تو چھ بائیکوں کی قیمت550000روپے ادا کرنے کا ضامن ہوں گا، باقی اٹھائیس بائیکوں کی ذمہ داری شاکر پر ہوگی، اب سوال یہ ہے کہ سید کرم شاہ نے اپنی خوشی اور رضامندی سے جو چھ بائیکوں کی ذمہ داری قبول کی ہے تو کیایہ درست ہے اور اب وہ شرعاً ضامن ہو گا؟

وضاحت: سائل نے بتایا کہ شاکر نے ہم سے کہا کہ مجھے  فی موٹرسائیکل (ہنڈا سی ڈی) ایڈوانس رقم دےدو تو میں تمہیں پینتالیس(45) دن بعد مارکیٹ ریٹ سے کم قیمت پر موٹر سائیکل دوں گا، ہم نے کچھ اور مولوی حضرات سے بھی پیسے لے کر 34 موٹر سائیکلوں کی رقم جمع کروا دی، لیکن شاکر رقم لے کر بھاگ گیا، ایک دو  سال کے بعد ہم نے اس کو پکڑا اور کہا کہ لوگ   ہمیں تنگ کر رہے ہیں، لہذا آپ ہمیں موٹرسائیکل دیں تو اس نے  چھ عدد موٹرسائیکل کی ادائیگی کے لیے سید کرم شاہ کو بطورِ ضامن دیا، سید کرم شاہ بھی اس پر راضی ہو گیا، لیکن ابھی وہ بھی اپنی بات سے پیچھے ہٹ گیا ہے۔کیا ہم اس سے ان چھ موٹرسائیکلوں کا مطالبہ کر سکتے ہیں؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

سوال میں ذکر کی گئی تفصیل کے مطابق چونکہ یہ خریدوفروخت ادھار ہوئی ہے، جس میں چونتیس (34) عدد ہنڈا سی ڈی موٹرسائیکلوں کی قیمت ایڈوانس دی گئی اور موٹرسائیکل پینتالیس(45) دن کے بعد دینا طے کیا گیا تھا اور عصر حاضر میں چونکہ موٹر سائیکل فیکٹریوں میں مشنری کے ذریعہ بنائے جاتے ہیں، جس کی وجہ سے ایک کمپنی کے موٹرسائیکل عام طور پر تمام اوصاف اور خصوصیات جیسے وزن اٹھانے کی صلاحیت(Capacity)، چلنے کی رفتار اور مضبوطی وغیرہ سب چیزوں میں برابر ہوتے ہیں، جس کی وجہ سے ان کو مثلیات(وہ چیزیں جن کے افراد ایک دوسرے کی مثل ہوں، جیسے چاول اور گندم وغیرہ) اور عددیات متقاربہ (وہ چیزیں جن کے افراد ایک دوسرے کے قریب قریب ہوں، جیسے انڈے وغیرہ) میں شمار کیا جا سکتا ہے اور ان دونوں چیزوں میں بیع سلم (یہ خریدوفروخت کی ایک قسم ہے، جس میں چیز کی قیمت پہلے اور بیچی گئی چیز ایک مخصوص مدت کے بعد ادا کی جاتی ہے) ہو سکتی ہے، لہذا مذکورہ خریدوفروخت فقہی اعتبار سے بیع سلم  شمار ہو گی ، جس میں بیچی گئی چیز فروخت کنندہ کے ذمہ طے شدہ مدت کے بعد واجب الاداء ہوتی ہے اور جو چیز واجب فی الذمہ ہو اس کو شریعت کی اصطلاح میں دَین کہا جاتا ہے اور دین کی ضمانت لینا شرعاً درست ہے۔ وإن كان الدين لم يبق مؤجلا بمضي مدة السلم، لكن الكفالة تصح بالدين سواء مؤجلا كان أو حالا.

 لہذا صورتِ مسئولہ میں سید کرم شاہ کا چھ عددموٹرسائیکلوں کی ضمانت لینا درست ہے اور ضمانت کے مطابق موٹرسائیکل نہ ادا کرنے کی صورت میں ان کی قیمت اس کے ذمہ واجب ہو گی اوراب اس کے انکار کرنے کی صورت میں آپ پنچائت وغیرہ کے ذریعہ اس کو موٹرسائیل یا ان کی قیمت ادا کرنے پر مجبور کر سکتے ہیں۔ پھر اس مسئلہ میں چونکہ سید کرم شاہ نے یہ ضمانت شاکر کے کہنے پر لی ہے، اس لیے آپ لوگوں کوموٹرسائیکل دینےکے بعد بہر دو صورت شاکر سے وہ یہ قیمت وصول کرنے کا حق رکھتا ہے،نیزموٹرسائیکل ادا کرنے سے پہلے یہ شاکر کو مجبور کر سکتا ہے کہ وہ آپ لوگوں کو موٹرسائیکل سپرد کرے۔

حوالہ جات
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (5/ 207) دار الكتب العلمية:
وأما الذي يرجع إلى المسلم فيه فأنواع أيضا:
(منها) أن يكون معلوم الجنس كقولنا: حنطة أو شعير أو تمر.
 (ومنها) أن يكون معلوم النوع.
كقولنا: حنطة سقية أو نحسية، تمر برني أو فارسي هذا إذا كان مما يختلف نوعه، فإن كان مما لا يختلف فلا يشترط بيان النوع.
 (ومنها) أن يكون معلوم الصفة. كقولنا: جيد أو وسط أو رديء.
(ومنها) أن يكون معلوم القدر بالكيل أو الوزن أو العد أو الذرع؛ لأن جهالة النوع، والجنس، والصفة، والقدر جهالة مفضية إلى المنازعة وأنها مفسدة للعقد، وقال النبي: - عليه الصلاة والسلام - «من أسلم منكم فليسلم في كيل معلوم ووزن معلوم إلى أجل معلوم» ............... (ومنها) أن يكون مما يمكن أن يضبط قدره وصفته بالوصف على
وجه لا يبقى بعد الوصف إلا تفاوت يسير، فإن كان مما لا يمكن ويبقى بعد الوصف تفاوت فاحش لا يجوز السلم فيه؛ لأنه إذا لم يمكن ضبط قدره وصفته بالوصف يبقى
مجهول القدر أو الوصف جهالة فاحشة مفضية إلى المنازعة وإنها مفسدة للعقد، وبيان ذلك أنه يجوز السلم في المكيلات، والموزونات التي تحتمل التعيين والعدديات المتقاربة.
المبسوط للسرخسي (12/ 151) دار المعرفة – بيروت:
 وأما أخذ الرهن والكفيل يجوز بالمسلم فيه وهكذا ذكر ابن شجاع عن زفر رحمهما الله تعالى وذكر الحسن عن زفر رحمهما الله تعالى أنه لا يجوز فعلى رواية ابن شجاع قال: كل دين لا يجوز قبضه في المجلس ويجوز التأجيل فيه فأخذ الرهن والكفيل به صحيح للتوثيق والمسلم فيه بهذه الصفة بخلاف رأس المال وبدل الصرف.
الفقه الإسلامي وأدلته للزحيلي (5/ 3634) دار الفكر - سوريَّة – دمشق:
الخلاصة: تجوز الحوالة عند الحنفية على المسلم فيه، ولاتجوز عند الجمهور، وقصر المالكية المنع على ما إذا كان المسلم فيه طعاما. ويجوز أخذ الرهن والكفيل بالمسلم فيه عند الجمهور لما لهما من الفائدة.
فقه البيوع (570/1) للشيخ محمد تقي العثماني، مكتبة معارف القرآن كراتشي:
وبما أن السلم يجوز في العدديات المتقاربة، فإنه يجوز في السيّارات والدرّاجات والطائرات والثلّاجات والمكيّفات والأدوات المنزلية والكهربائية التي ينضبط نوعها ووصفها وموديلها ولونها ونحو ذلك من الأوصاف التي لها دخل في رغبه المشترين، ولا بأس بتعيين المصنع أوالعلامة التجارية، بشرط أن يكون المسلم فيه عامّ الوجود في محله بحكم الغالب عند حلول أجله.
الهداية في شرح بداية المبتدي (3/ 91) دار احياء التراث العربي – بيروت:
قال: "وتجوز الكفالة بأمر المكفول عنه وبغير أمره" لإطلاق ما روينا ولأنه التزام المطالبة وهو تصرف في حق نفسه وفيه نفع للطالب ولا ضرر فيه على المطلوب بثبوت الرجوع إذ هو عند أمره وقد رضي به "فإن كفل بأمره رجع بما أدى عليه" لأنه قضى دينه بأمره "وإن كفل بغير أمره لم يرجع بما يؤديه" لأنه متبرع بأدائه........... قال: "وليس للكفيل أن يطالب المكفول عنه بالمال قبل أن يؤدي عنه" لأنه لا يملكه قبل الأداء، بخلاف الوكيل بالشراء حيث يرجع قبل الأداء لأنه انعقد بينهما مبادلة حكمية. قال: "فإن لوزم بالمال كان له أن يلازم المكفول عنه حتى يخلصه" وكذا إذا حبس كان له أن يحبسه لأنه لحقه ما لحقه من جهته فيعامله بمثله.
"وإذا أبرأ الطالب المكفول عنه أو استوفى منه برئ الكفيل" لأن براءة الأصيل توجب براءة الكفيل لأن الدين عليه في الصحيح "وإن أبرأ الكفيل لم يبرأ الأصيل عنه" لأنه تبع، ولأن عليه المطالبة وبقاء الدين على الأصيل بدونه جائز "وكذا إذا أخر الطالب عن
الأصيل فهو تأخير عن الكفيل، ولو أخر عن الكفيل لم يكن تأخيرا عن الذي عليه الأصل" لأن التأخير إبراء موقت فيعتبر بالإبراء المؤبد، بخلاف ما إذا كفل بالمال الحال مؤجلا إلى شهر فإنه يتأجل عن الأصيل لأنه لا حق له إلا الدين حال وجود الكفالة فصار الأجل داخلا فيه، أما هاهنا فبخلافه.
الفقه الإسلامي وأدلته للزحيلي (6/ 4153) المملكة العربية السعودية:
ويصح تنجيز الكفالة بالدين الحال على أن يؤديه في أجل معين؛ لأنه قد لا يتيسر للضامن الأداء حالا، ويصح ضمان الدين المؤجل حالا؛ لأنه تبرع بالتزام التعجيل؛ ولكن لا يلزمه التعجيل.

محمد نعمان خالد

دارالافتاء جامعة الرشیدکراچی

24/محرم الحرام 1446ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد نعمان خالد

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے