84416 | طلاق کے احکام | بچوں کی پرورش کے مسائل |
سوال
جناب عالی!سوال یہ ہے کہ میری بیوی مجھ سے خلع کا مطالبہ کر رہی ہے، کافی سمجھانے کے باوجود وہ بضد ہے،بالآخر تمام تر کوششوں کے ناکام ہونے کے بعد میں اول طلاق دینے پر مجبور ہو گیا ہوں۔
خاتون سے میری تین بچے بھی ہیں، پہلی بیٹی ہےجس کی عمر 12 سال ہے، دوسرا بیٹا ہے جس کی عمر 7 سال 7 ماہ اور تیسرا بھی بیٹا ہےجس کی عمر 3سال 10 ماہ ہے۔
سوال یہ ہے کہ طلاق کے بعد اولاد کس عمر تک والدہ کے پاس رہے گی اور کب والد کی تحویل میں دی جائے گی؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
طلاق کے بعد بچے کی پرورش کا سات سال تک،جبکہ لڑکی کی پرورش کاحق بالغ ہونے تک ماں،نانی اور دادی کو حاصل ہوتا ہے،جبکہ ان کے علاوہ دیگر عورتوں(خالہ،بہن وغیرہ) کو نو سال تک پرورش کا حق حاصل ہوتا ہے،باپ کو زبردستی لینے کا حق نہیں ،اس کے بعد باپ چاہے تو لے سکتاہے ،ماں کو روکنے کا حق نہ ہوگا،البتہ اگر اس دوران ماں نے کسی ایسے مرد سے نکاح کرلیا جو بچے کا محرم رشتہ دار نہ ہو تو اس کی پرورش کا حق ختم ہوجائے گا،اس کے بعد نانی کو پرورش کا حق حاصل ہوگا،اگر نانی نہ ہو یا وہ پرورش پر آمادہ نہ ہو تو پھر دادی کو حق حاصل ہوگا۔
باپ کو بلوغت تک بچوں کو اپنے پاس رکھنے کا اختیار ہے،بچے جب بالغ ہوجائیں اور اپنے نفع نقصان کو سمجھنے لگیں تو پھر شریعت نے انہیں اختیار دیا ہے کہ جہاں چاہیں رہیں،کوئی انہیں ساتھ رہنے پر مجبور نہیں کرسکتا،البتہ اگر بلوغت کے بعد بھی وہ سمجھدار نہ ہوں اور ان پر بھروسہ نہ کیا جاسکتا ہو تو پھر باپ کوانہیں اپنے پاس رکھنے کا حق حاصل ہے۔
نیز بلوغت کے بعد اگر لڑکی کسی ایسی جگہ رہنا چاہتی ہو،جہاں رہنے میں اخلاقی طور پر اس کے بگڑنے کا اندیشہ ہو،یا اس کی عزت اور آبرو کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو تو والد بحیثیتِ سرپرست اسے روک سکتا ہے۔
حوالہ جات
"الفتاوى الهندية" (1/ 541):
"وإن لم يكن له أم تستحق الحضانة بأن كانت غير أهل للحضانة أو متزوجة بغير محرم أو ماتت فأم الأم أولى من كل واحدة، وإن علت، فإن لم يكن للأم أم فأم الأب أولى ممن سواها، وإن علت كذا في فتح القدير".
"الدر المختار " (3/ 566):
"(والحاضنة) أما، أو غيرها (أحق به) أي بالغلام حتى يستغني عن النساء وقدر بسبع وبه يفتى لأنه الغالب. ولو اختلفا في سنه، فإن أكل وشرب ولبس واستنجى وحده دفع إليه ولو جبرا وإلا لا (والأم والجدة) لأم، أو لأب (أحق بها) بالصغيرة (حتى تحيض) أي تبلغ في ظاهر الرواية. ولو اختلفا في حيضها فالقول للأم بحر بحثا".
وأقول: ينبغي أن يحكم سنها ويعمل بالغالب. وعند مالك، حتى يحتلم الغلام، وتتزوج الصغيرة ويدخل بها الزوج عيني (وغيرهما أحق بها حتى تشتهى) وقدر بتسع وبه يفتى.
"البحر الرائق " (ج 11 / ص 199):
"( قوله ومن نكحت غير محرم سقط حقها ) أي : غير محرم من الصغير كالأم إذا تزوجت بأجنبي منه لقوله { عليه الصلاة والسلام أنت أحق به ما لم تتزوجي } ولأن زوج الأم إذا كان أجنبيا يعطيه نزرا وينظر إليه شزرا فلا نظر له".
"الفتاوى الهندية" (1/ 542):
"وبعدما استغنى الغلام وبلغت الجارية فالعصبة أولى يقدم الأقرب فالأقرب كذا في فتاوى قاضي خان. ويمسكه هؤلاء إن كان غلاما إلى أن يدرك فبعد ذلك ينظر إن كان قد اجتمع رأيه وهو مأمون على نفسه يخلى سبيله فيذهب حيث شاء، وإن كان غير مأمون على نفسه فالأب يضمه إلى نفسه ويوليه ولا نفقة عليه إلا إذا تطوع كذا في شرح الطحاوي.
والجارية إن كانت ثيبا وغير مأمونة على نفسها لا يخلى سبيلها ويضمها إلى نفسه، وإن كانت مأمونة على نفسها فلا حق له فيها ويخلى سبيلها وتنزل حيث أحبت كذا في البدائع".
محمد طارق
دارالافتاءجامعۃالرشید
25/محرم الحرام1446ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | محمد طارق غرفی | مفتیان | سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب |