021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
کسی بات یا کام کے لیے بیوی کو "چھوڑ دیا” کہنے سے طلاق واقع ہوگی یا نہیں؟
84412طلاق کے احکامالفاظ کنایہ سے طلاق کا بیان

سوال

میں اپنے شوہر سے فون پر بات کر رہی تھی، مجھے والدہ نے بلایا، میں نے ان سے کہا چھوڑیں اس بات کو، یا چھوڑیں اب، مجھے والدہ بلا رہی ہے۔ اس نے فون کاٹ لیا۔ میں نے واپس فون کیا، انہوں نے فون اٹھایا، میں نے پوچھا کیا ہوا؟ اس نے کہا: تم نے کہا چھوڑیں تو میں نے چھوڑ دیا۔

سوال یہ ہے کہ کیا اس سے طلاق ہوگئی؟ انہوں نے یہ الفاظ "چھوڑ دیا" غصے میں کہے، لیکن ان کا مطلب فون چھوڑنا تھا یا مجھے اس وقت کے لیے چھوڑنا تھا، تاکہ میں اپنا کام کرسکوں۔ جیسے ہم عموما بولتے ہیں "چھوڑ دیں مجھے"، جواب میں کوئی کہتا ہے "چھوڑ دیا"۔ میرا مقصد ان کو فون چھوڑنے کے لیے کہنا بھی نہیں تھا، میرا مقصد وہ موضوع چھوڑ دینے کا تھا، لیکن وہ سمجھے میرا مقصد فون چھوڑنا یا ابھی کے لیے اکیلے چھوڑ دینا ہے۔

میں نے کہیں پڑھا تھا کہ "چھوڑ دیا" بولنے سے طلاق ہوتی ہے، اس لیے مجھے فکر ہوئی۔ میں پھر دہراتی ہوں کہ میں نے " مجھے چھوڑ دیں" نہیں کہا تھا، میں نے کہا تھا "چھوڑ دیں"۔ اور میرے شوہر نے بھی "تم کو چھوڑ دیا" نہیں کہا، اس نے کہا: "تم نے کہا چھوڑ دیں تو میں نے چھوڑ دیا۔"

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

مفتی غیب نہیں جانتا، وہ سوال کے مطابق جواب دیتا ہے۔ غلط بیانی کر کے فتویٰ لینے سے کوئی حرام حلال ہوتا ہے، نہ ہی کوئی حلال حرام، اور غلط بیانی کا وبال بھی سائل پر آئے گا۔

اس تمہید کے بعد آپ کے سوال کا جواب یہ ہے کہ "چھوڑ دینے" کے لفظ کی نسبت (صراحتاً ہو یا معنیً) جب بیوی کی طرف مستقل چھوڑنے کے طور پر کی جائے تو اس سے طلاق واقع ہوتی ہے۔ کسی بات یا کام کو چھوڑنے یا کسی کام کے لیے بیوی کو وقتی طور پر چھوڑنے کی غرض سے یہ لفظ کہنے سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوتی۔ لہٰذا اگر سوال میں ذکر کردہ تفصیل درست ہے اور آپ کے شوہر نے واقعتاً یہ الفاظ " تم نے کہا چھوڑیں تو میں نے  چھوڑ دیا" کے الفاظ طلاق دینے کی نیت سے نہیں کہے تھے، بلکہ ان کا مقصد فون چھوڑنا یا اس وقت آپ کو کام کے لیے چھوڑنے کا تھا تو ان الفاظ سے آپ پر کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی۔ البتہ آپ کے شوہر کی بات اس وقت معتبر ہوگی جب وہ قسم اٹھائے کہ میری نیت آپ کو طلاق دینے کی نہیں، بلکہ فون چھوڑنے یا آپ کو اس وقت کام کے لیے چھوڑنے کی تھی۔

حوالہ جات
البحر الرائق (3/ 329-326):
 وحاصل ما في الخانية أن من الكنايات ثلاثة عشرة لا يعتبر فيها دلالة الحال ولا تقع إلا بالنية حبلك على غاربك تقنعي تخمري استتري قومي اخرجي اذهبي انتقلي انطلقي تزوجي اعزبي لا نكاح لي عليك وهبتك لأهلك، وفيما عداها تعتبر الدلالة. ……….. في الهداية: وفي كل موضع يصدق الزوج على نفي النية إنما يصدق مع اليمين؛ لأنه أمين في الإخبار عما في ضميره، والقول قول الأمين مع اليمين ا هـ

     عبداللہ ولی غفر اللہ لہٗ

  دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

      27/محرم الحرام/1446ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبداللہ ولی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے