83453 | میراث کے مسائل | میراث کے متفرق مسائل |
سوال
میرےدوست کے والد کا نام محمد سلطان ہے اور ان کا انتقال تین ماہ قبل ہوا ہے۔ا ب ہم سارے بہن بھائی میراث شرعی طور پر تقسیم کرنا چاہتے ہیں ۔برائے مہربانی اس لحاظ سے رہنمائی کریں۔ہم چار بھائی اوردو بہنیں ہیں۔ہماری والدہ بھی حیات ہیں۔اسی طرح ہمارے تین چچا اور ایک پھوپھی زندہ ہیں جبکہ ایک پھوپھی کا انتقال ہو چکا ہے۔اس حوالے سے بتا دیں کہ شرعی طور پر ہر ایک کا کتنا حصہ بنتا ہے؟
تنقیح:مرحوم کے والدین ،دادا ،دادی یا نانا،نانی زندہ نہیں ہیں۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
مرحوم کے ترکہ میں سب سے پہلے تجہیز وتکفین کامعتدل خرچہ (اگركسی وارث نے یہ خرچہ بطورتبرع نہ کیا ہو) اداکیاجائےگا،پھر مرحوم کاقرضہ اداکیاجائےگا،تیسرے نمبر پر اگرمرحوم نے کسی کے لیے اپنے مال میں وصیت کی ہو تو ایک تہائی تک اسے اداکیاجائے،اس کےبعد موت کے وقت موجود ورثہ میں میراث تقسیم کی جائےگی۔موجودہ صورت میں مرحوم کےمال میں سابقہ تینوں حقوق اداءکرنےکےبعدموجودورثہ(تین بھائی،ایک بہن،ایک بیوی،چار بیٹے اور دو بیٹیاں) میں میراث کی تقسیم کی جائےگی۔مذکورہ ورثہ میں بیٹوں کی موجودگی کی بناء پرمیت کی بہنیں اور بھائی محروم ہوں گےان کا میراث میں حصہ نہ ہو گا البتہ بقیہ ورثہ میں میراث تقسیم ہو گی۔
فیصدی اعتبارسے محمد سلطان کی زوجہ کا حصہ 12.5 فیصد،محمد سلطان کی ہربیٹی کا حصہ 8.75 فیصداور ہربیٹے کا حصہ 17.5 فیصد ہو گا۔لہذا کل مال کو مذکورہ تناسب سے تمام ورثہ میں تقسیم کر لیا جائے۔
نقشہ برائے تقسیم میراث:
نمبر شمار |
ورثہ |
فیصدی حصہ |
نمبر شمار |
ورثہ |
فیصد ی حصہ |
1 |
محمد سلطان کی زوجہ |
12.5% |
2 |
پہلا بیٹا |
17.5% |
3 |
دوسرا بیٹا |
17.5% |
4 |
تیسرا بیٹا |
17.5% |
5 |
چوتھا بیٹا |
17.5% |
6 |
پہلی بیٹی |
8.75% |
7 |
دوسری بیٹی |
8.75% |
|
|
|
حوالہ جات
قال الله تعالى عز و جل:ﵟيُوصِيكُمُ ٱللَّهُ فِيٓ أَوۡلَٰدِكُمۡۖ لِلذَّكَرِ مِثۡلُ حَظِّ ٱلۡأُنثَيَيۡنِۚ فَإِن كُنَّ نِسَآءٗ فَوۡقَ ٱثۡنَتَيۡنِ فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَۖ وَإِن كَانَتۡ وَٰحِدَةٗ فَلَهَا ٱلنِّصۡفُۚ[النساء: 11] ﵟوَلَكُمۡ نِصۡفُ مَا تَرَكَ أَزۡوَٰجُكُمۡ إِن لَّمۡ يَكُن لَّهُنَّ وَلَدٞۚ فَإِن كَانَ لَهُنَّ وَلَدٞ فَلَكُمُ ٱلرُّبُعُ مِمَّا تَرَكۡنَۚ مِنۢ بَعۡدِ وَصِيَّةٖ يُوصِينَ بِهَآ أَوۡ دَيۡنٖۚ وَلَهُنَّ ٱلرُّبُعُ مِمَّا تَرَكۡتُمۡ إِن لَّمۡ يَكُن لَّكُمۡ وَلَدٞۚ فَإِن كَانَ لَكُمۡ وَلَدٞ فَلَهُنَّ ٱلثُّمُنُ مِمَّا تَرَكۡتُمۚ مِّنۢ بَعۡدِ وَصِيَّةٖ تُوصُونَ بِهَآ أَوۡ دَيۡنٖۗﵞ [النساء: 12]
قال العلامة الحصكفي رحمه الله تعالى: (فيفرض للزوجة فصاعدا الثمن مع ولد أو ولد ابن) وأما مع ولد البنت فيفرض لها الربع (وإن سفل، والربع لها عند عدمهما) فللزوجات حالتان الربع بلا ولد والثمن مع الولد (والربع للزوج) فأكثر. (الدر المختار:512)
قال العلامة الزيلعي رحمه الله تعالى: (وعصبها الإبن، وله مثلا حظها) معناه :إذا اختلط البنون والبنات عصب البنون البنات ،فيكون للإبن مثل حظ الأنثيين ؛لقوله تعالى {يوصيكم الله في أولادكم للذكر مثل حظ الأنثيين} .(تبيين الحقائق: 233/6)
قال العلامة ابن عابدين رحمه الله تعالى: للبنات ستة أحوال: ثلاثة تتحقق في بنات الصلب، وبنات الابن وهي النصف للواحدة والثلثان للأكثر وإذا كان معهن ذكر عصبهن ...... وللزوجة الربع عند عدمهما والثمن مع أحدهما، والزوجات والواحدة يشتركن في الربع والثمن وعليه الإجماع.(رد المحتار :515/10)
قال جمع من العلماء رحمهم الله تعالى: وأما الربع ففرض صنفين فرض الزوج إذا كان للميت ولد أو ولد ابن ،وفرض الزوجة أو الزوجات إذا لم يكن للميت ولد ولا ولد ابن وأما الثمن ففرض الزوجة أو الزوجات إذا كان للميت ولد أو ولد ابن .(الفتاوى الهندية : 500/6 )
ہارون عبداللہ
دارالافتاء جامعۃ الرشید،کراچی
08 شعبان 1445ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | ہارون عبداللہ بن عزیز الحق | مفتیان | فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب |