84435 | نکاح کا بیان | جہیز،مہر اور گھریلو سامان کا بیان |
سوال
ایک شخص کی شادی 10 نومبر 2018ء میں ہوئی۔ مہر کی رقم کے طور پر یہ عبارت نکاح نامہ میں درج ہے : ”سات مرلہ مکان واقعہ تحصیل بھوانہ ، وراڈ 5، ضلع چینوٹ قیمت تقریباً 150000 ( پندرہ لاکھ روپے ہے) اور یہ مکان شوہر نے ابھی تک بیوی کے حوالے نہیں کیا تھا ،اور ابھی مذکورہ بالا مکان میاں بیوی نے باہمی مشاورت سے فروخت کر دیا، اب تقریباً چھ سال بعد شوہر اپنی بیوی کو حق مہر دینا چاہتا ہے، قرآن وسنت کی روشنی میں رہنمائی کی جائے، مکان کی قیمت دی جائے گی یا اس جیسا مکان بنوا کر یا خرید کر دیاجائے گا ؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
صورت مسئولہ میں جو پلاٹ بیوی کو حق ِ مہر کے طور پر ملا وہ بیوی کی ملکیت تھا ، لہذا اس کو جتنی رقم میں بیچا گیا ہے وہ پیسے بھی بیوی ہی کی ملکیت ہے ،لہذا شوہرکو اپنی بیوی کو مذکورہ بالا پلاٹ کی قیمت فروخت دینی ہوگی۔
حوالہ جات
أن المرأة تملك المهر قبل القبض ملكا تاما إذ الملك نوعان ملك رقبة وملك يد وهو ملك التصرف ولا شك أن ملك الرقبة ثابت لها قبل القبض وكذلك ملك التصرف لأنها تملك التصرف في المهر قبل القبض من كل وجه.(بدائع الصنائع :2/ 313)
وجملة الكلام فيه أن المهر في الأصل لا يخلو إما أن يكون معينا مشارا إليه، وإما أن يكون مسمى غير معين مشارا إليه، فإن كان معينا مشارا إليه صحت تسميته، سواء كان مما يتعين بالتعيين في عقود المعاوضات من العروض والعقار والحيوان وسائر المكيلات والموزونات سوى الدراهم والدنانير أو كان مما لا يتعين بالتعيين في عقود المعاوضات كالدراهم؛ لأنه مال لا جهالة فيه إلا أنه كان مما يتعين بالتعيين ليس للزوج أن يحبس العين ويدفع غيرها من غير رضا المرأة؛ لأن المشار إليه قد تعين للعقد فتعلق حقها بالعين فوجب عليه تسليم عينه، وإن كان مما لا يتعين له أن يحبسه ويدفع مثله جنسا ونوعا وقدرا وصفة؛ لأن التعيين إذا لم يصح صار مجازا عوضا من الجنس والنوع والقدر والصفة".(بدائع الصنائع:2/ 282)
محمد ادریس
دارالافتاء جامعۃ الرشید،کراچی
27 ٖمحرم الحرام1445ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | محمد ادریس بن محمدغیاث | مفتیان | سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب |