84431 | خرید و فروخت کے احکام | حقوق کی خریدوفروخت کے مسائل |
سوال
ہمارے علاقے میں کافی ہاؤسنگ سوسائٹیاں بننے کی وجہ سے زمینوں کے پرانے مالک نہری پانی کو سالانہ کے حساب سے رقم کے عوض فروخت کر دیتے ہیں،اور سال گزرنے کہ بعد رقم بڑھائی بھی جاتی ہے۔کیا نہری پانی کو اپنی زمین کے علاوہ کسی کو فروخت کرنا جائز ہے؟ مزید یہ کہ اگر زمین کا زرعی استعمال ختم ہو جائے تو کیا اس زمین کا نہری پانی استعمال کرنا یا سالانہ کی بنیاد پر فروخت کرناجائز ہے؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
پانی جب تک محرز نہ ہو اس کی خرید و فروخت جائز نہیں ۔ محرز ہونے کا مطلب یہ کہ اس کو کسی برتن ، ٹینکی، ٹینکر، یا کسی بھی ایسی جگہ محفوظ کیا جائے ،جہاں پانی کا بہاؤ رک جائے،جبکہ اس کے علاوہ پانی کو بیچنا جائز نہیں۔
نہریں چونکہ پبلک پراپرٹی ہے ، کسی خاص شخص کی اس میں ملکیت نہیں ہوتی ،بلکہ کسان یا زمین دار کو صرف حقِ انتفاع حاصل ہوتا ہے، جسے حقِ شرب کہتے ہیں ۔حق شرب حق مجرد ہےجس کو بیچنا تو جائز نہیں، البتہ صلح اور دست برداری کے طور پرحق ِشرب کا عوض لیا جا سکتا ہے۔
مذکورہ صورت میں اگر زمین میں تعمیرات ہوگئیں اور آبادی کی وجہ سے وہ علاقہ زرعی زمینوں کے بجائے رہائشی زمینوں میں شمار ہونے لگ گیاتو علاقے والوں کو حق شرب حاصل نہ ہوگا ،اور ا س کا عوض لینا بھی جائز نہ ہوگا ۔ اور اگر کسی علاقے میں فی الوقت زراعت نہیں ہو رہی ،لیکن اس کا شمار زرعی زمینوں میں ہی ہوتا ہے توحق شرب حاصل ہوگا ۔اس صورت میں سالانہ کی بنیاد پر تو رقم لینا جائز نہیں ہوگا ، البتہ صرف ایک مرتبہ مالکان اپنے حق سےدائمی طور پر دستبردار ہونے کے عوض سوسائٹی والوں سے کوئی معلوم رقم لے سکتے ہیں ،لیکن اس صورت میں دست بردار ہونے والے شخص کا حق اس پانی سےہمیشہ کے لیے ختم ہو جائے گا ۔
حوالہ جات
شرح المجلۃ((120/2:
اقول " وعلى ما ذكروه من جوازا لاعتياض عن الحقوق المجردة بمال ينبغي ان يجوز الاعتياض عن حق التعلى وعن حق الشرب وعن حق المسيل بمال لان هذه الحقوق لم تثبت لاصحابها لاجل دفع الضرر عنهم بل ثبتت لهم ابتداء بحق شرعى فصاحب حق العلو اذا انهدم علوه، قالوا: ان له حق اعادته كما كان جبرا عن صاحب السفل، فاذا نزل عنه لغيره بمال معلوم ينبغي ان يجوز ذلك على وجه الفراغ و الصلح ، لا على وجه البيع، كما جاز النزول عن الوظائف و نحوها لاسيما اذا كان صاحب حق العلو فقيرا قد عجز عن اعادة علوه، فلو لم يجز ذلك له على الوجه الذي ذكرناه، يتضررفليتامل وليحرر والله سبحانه اعلم
«الموسوعة الفقهية الكويتية» (25/ 378):
«وذهب الحنفية إلى أنه لا يجوز بيع الشرب منفردا بأن باع شرب يوم أو أكثر لأنه عبارة عن حق الشرب والسقي، والحقوق لا تحتمل الإفراد بالبيع والشراء، ولو اشترى الشرب بدار وقبضها لزمه رد الدار لأنها مقبوضة بحكم عقد فاسد، فكان واجب الرد كسائر العقود الفاسدة، ولا شيء على البائع بما انتفع به من الشرب، وإن باع الشرب مع الأرض جاز تبعا للأرض؛ لجواز كون الشيء تبعا لغيره وإن لم تجعله التبعية مقصودا بذاته، ولا يجوز جعله أجرة لدار، ولا إجارته منفردا لأن الحقوق لا تحتمل الإجارة كما لا تحتمل البيع........ ولا تجوز هبة الشرب والتصدق به؛ لأن ذلك كله تمليك والحقوق المفردة لا تحتمل التمليك، ولا يجوز الصلح لأن الصلح في معنى البيع ولا يصلح مهرا ولا بدل خلع۔
محمد سعد ذاكر
دارالافتاء جامعہ الرشید،کراچی
28 /محرم ا لحرام /1446ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | محمد سعد ذاکر بن ذاکر حسین | مفتیان | سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب |