021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
مشترکہ کمائی کی تقسیم سے پہلے کسی کا انتقال ہو تو اس کے حصے کا حکم
84472شرکت کے مسائلشرکت سے متعلق متفرق مسائل

سوال

حاجی محمد علی مرحوم کے دو بیٹے تھے، برادر علی اور افسر علی۔ ان دونوں بھائیوں کے تین تین بیٹے ہیں۔ برادر کے تین بیٹوں کے نام: بابر عبد اللہ، امداد اللہ اور برکت اللہ۔ افسر علی کے تین بیٹوں کے نام: مثاقب، مزمل اور سہیل۔ افسر علی کا ایک بیٹا مثاقب آٹھ سال پہلے فوت ہوگیا ہے، البتہ اس کا بیٹا عاقب زندہ ہے۔ برادر علی اور افسر علی مال و جائیداد تقسیم کرنا چاہتے ہیں، جو سب کا اکٹھا کمایا ہوا ہے۔ افسر علی اپنے بھائی برادر علی سے کہتا ہے کہ ہم جو تقسیم کرنے جارہے ہیں، میں اس میں اپنے مرحوم بیٹے مثاقب کے بیٹے عاقب کو بھی حصہ دینا چاہتا ہوں، اس لیے کہ اس کا باپ ہمارے ساتھ کام کرتا تھا۔ سوال یہ ہے کہ کیا افسر علی ایسا کرسکتا ہے یا نہیں؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

برادر علی اور افسر علی کے مشترکہ کام کی نوعیت اور اس میں مثاقب علی کی حیثیت معلوم کرنے کے لیے سائل کو فون کیا، تاکہ یہ معلوم کیا جاسکے کہ ان دونوں بھائیوں کا کام کیا تھا اور اس میں مثاقب علی کیا کام کرتا تھا اور اس کا سرمایہ بھی شامل تھا یا نہیں؟ لیکن انہوں نے فون نہیں اٹھایا اور کوئی جواب نہیں دیا۔ اس لیے اس سوال کا اصولی جواب یہ ہے کہ:

اگر مثاقب مرحوم اپنے والد اور چچا کے ساتھ شریک یعنی پارٹنر کے طور پر کام کرتا تھا، تب تو اس کا سرمایہ اور نفع دونوں اس کی میراث میں شامل ہیں جو اس کے تمام ورثا (صرف اس کے بیٹے عاقب کو نہیں) کے درمیان ان کے شرعی حصوں کے مطابق تقسیم ہوگا۔ اور اگر مثاقب مرحوم ان کے ساتھ شریک نہیں تھا، کاروبار ان دونوں بھائیوں کا تھا، وہ صرف ان کے ساتھ کام کرتا تھا تو پھر وہ اجرتِ مثل کا مستحق تھا، لہٰذا اگر کام کرتے ہوئے اس کو روزانہ، ہفتہ وار یا ماہانہ اتنی رقم دی جاتی تھی، جتنی اس وقت مارکیٹ میں اس طرح کے آدمی کو اس جیسے کام کی دی جاتی تھی تو اب اس کا اس کمائی میں کوئی حصہ نہیں ہوگا جو اس کے ورثا کو دیا جاسکے، لہٰذا اس صورت میں افسر علی یک طرفہ طور پر اپنے پوتے کو مشترکہ کاروبار میں سے کچھ نہیں دے سکے گا، البتہ تقسیم کے بعد اپنے حصے میں سے اس کو دے سکتا ہے۔ لیکن اگر مثاقب مرحوم کو کام کرتے ہوئے اتنی اجرت نہیں دی جاتی تھی تو اس نے جتنا عرصہ کام کیا تھا، اس کے حساب سے اس کی جو اجرت بنے گی وہ اس کی میراث ہوگی جو اس کے ورثا کو دینا لازم ہوگا۔

حوالہ جات
۔

     عبداللہ ولی غفر اللہ لہٗ

  دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

      29/محرم الحرام/1446ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبداللہ ولی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے