021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
شراب کا کاروبار کرنے کی چیز کھانے کا حکم
84445متفرق مسائلمتفرق مسائل

سوال

میرے کچھ رشتہ دار ہیں ، ان کا شراب کا  کا روبار ہے ، اور ساری آمدن اسی سے حاصل ہوتی ہے، یعنی حلال آمدن کا کوئی بھی ذریعہ نہیں ہے ، کُل آمدن حرام ہے ، میرا ان کے گھر آنا جانا رہتا ہے ، کیونکہ رشتہ دار ہیں ،اب پوچھنا یہ ہے کہ وہ مہمانی کے طور پر کچھ پیش کرتے ہیں تو کیا میرے لئے کھانا جائز ہے ؟ میں مستحقِ زکوٰۃ ہوں ،اور حرام مال کا مصرف فقراء اور مساکین ہی ہیں، تو کیا میں اس نیت سے ان کا پیش کیا ہوا کھانا کھا سکتا ہوں کہ یہ مال تو ویسے ہی صدقہ کے لائق ہے اور میں بھی مستحق زکوٰۃ ہوں، لہٰذا میں یہ کھالوں ، تو کیا اس نیت سے میرے لئے کھانا جائز ہے ؟ برائےکرم مدلل جواب دیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

شراب یاکسی بھی حرام طریقےسےکمانےوالےکاروباری لوگوں کےبارےمیں اگریہ معلوم ہوکہ ان کااکثر مال حرام ہے،توان کے ہاں کھانا پینا جائز نہیں،لیکن اگر وہ لوگ یہ وضاحت کردیں کہ یہ دعوت یاکھاناوغیرہ خاص حلال مال سےتیارکیاگیاہے، توپھرکھانا جائزہے، لہذا اگر آپ واقعتامستحق زکوۃ ہیں اور آپ کا رشتہ دارحرام مال یا  ایسے مال سے جس میں حرام کمائی غالب ہو،  کھانا تیار کرکے آپ کو تملیکا ( مالک بناکر) دے دیں اور پھر وہ کھانا خواہ آپ اس کے دسترخوان پر کھائیں یا اپنے ساتھ لے جائیں، بہرصورت اس کا کھانا جائز ہوگا، البتہ اگر  مالک بنائے بغیر ایسے ہی کھانا پیش کریں ،  تو اس کا کھانا جائز نہ ہوگا۔

حوالہ جات
المحيط البرهاني في الفقه النعماني (ج 10 / 178):
وفي «عيون المسائل»: رجل أهدى إلى إنسان أو أضافه إن كان غالب ماله من حرام لا ينبغي أن يقبل ويأكل من طعامه ما لم يخبر أن ذلك المال حلال استقرضه أو ورثه، وإن كان غالب ماله من حلال فلا بأس بأن يقبل ما لم يتبين له أن ذلك من الحرام؛ وهذا لأن أموال الناس لا تخلو عن قليل حرام وتخلو عن كثيره، فيعتبر الغالب ويبنى الحكم عليه.
مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر( 8 / 138):
 ( ولا يجوز قبول هدية أمراء الجور ) لأن الغالب في مالهم الحرمة ( إلا إذا علم أن أكثر ماله من حل ) بأن كان صاحب تجارة أو زرع فلا بأس به .وفي البزازية غالب مال المهدي إن حلالا لا بأس بقبول هديته وأكل ماله ما لم يتبين أنه من حرام ؛ لأن أموال الناس لا يخلو عن حرام فيعتبر الغالب وإن غالب ماله الحرام لا يقبلها ولا يأكل إلا إذا قال  إنه حلال أورثته واستقرضته ولهذا قال أصحابنا لو أخذ مورثه رشوة أو ظلما إن علم وارثه ذلك بعينه لا يحل له أخذه وإن لم يعلمه بعينه له أخذه حكما لا ديانة فيتصدق به بنية الخصماء.

صفی اللہ

دارالافتاء جامعۃ الرشید،کراچی

30/محرم ا لحرام/1446ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

صفی اللہ بن رحمت اللہ

مفتیان

محمد حسین خلیل خیل صاحب / سعید احمد حسن صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے