03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
کلوننگ اور بائیوٹیکنالوجی کے ذریعے بننے والی بیرونی اور اندرونی اعضاء کی شرعی حیثیت
84447جائز و ناجائزامور کا بیانعلاج کابیان

سوال

آج کل بائیوٹیکنالوجی کے ذریعے بافت اور اعضاء بن رہے ہیں۔بافت مل کر اعضاء بناتے ہیں مطلب دونوں کا حکم پھر ایک ہوجائے گا کیونکہ بافتوں سے ہی اعضاء بنتے ہیں،تو آج کل کلوننگ اور بائیوٹیکنالوجی کےذریعے یہ بافت اور اعضاء کچھ بن چکے ہیں اور کچھ بن رہے ہیں۔کچھ اندرونی ہیں جیسا کہ دل ،گردے،پھیپھڑے مثانہ وغیرہ اور کچھ بیرونی اعضاء ہیں جیساکہ بال،ناخن،جلد وغیرہ۔دوسری بات یہ اعضاء مختلف جانوروں سے بننے پر تجربات ہورہے ہیں ان میں سے کچھ حلال جانوروں سے بن رہے ہیں اور کچھ حرام سے۔ ایسے اعضاء کا حکم کیا ہوگا؟

اضافہ از مجیب:

         بافت یعنی (Tissues)کے ذریعے جو اعضاء بنائے جاتے ہیں ، یہ میڈیکل کی ایک فیلڈ ہے، جسے (Tissue engineering) کہتے ہیں ۔ ٹشو انجینیرنگ میں اعضاء بنانے کے عمل میں خلیوں  (cells) کو ایک مکمل پراسس سے گزارا جاتا ہے۔ جس میں ان خلیوں کی نشونما ہوتی ہے اور یوں ایک خاص دورانئے تک  ان خلیوں کو  (scaffolds)میں خاص ماحول میں رکھا جاتا ہے،پھر  مصنوعی اعضاء بنائے جاتے ہیں۔ یہ خلیے خود مریض سے بھی حاصل کیے جاسکتے ہیں ، کسی  دوسرے انسان اور جانور وں سے بھی ،البتہ جانوروں  سے ان کا حصول  فی الحال معمول نہیں ۔ عموما خود مریض یا دوسرے کسی  ڈونر سے ہی یہ خلیے حاصل کیے جاتے ہیں۔

ٹشو انجینیرنگ کے ذریعے اعضاء بنانے میں ابھی تک اتنی ترقی نہیں ہوئی کہ پیچیدہ اعضاء بنائے جا سکیں ، جیسے دل ، گردے وغیرہ ۔ البتہ کچھ فلیٹ ٹشوز جیسے گھٹنوں کے جوڑ میں پائے جانے والے   ٹشوز ،  جلد کے ٹشوز، کچھ خون کی نالیاں اور ہڈیوں کے ٹشوز    بنائے جا سکے ہیں ۔

انسانی جسم   سے یہ خلیے کیسے حاصل کیے جاتے ہیں؟  اس کے مختلف  طریقے ہیں ، کبھی خون سے خاص قسم کے خلیے الگ کیے جاتے ہیں جسے (isolation of stem cells)کہا جاتا ہے ۔اسی طرح کبھی ہڈیوں کے گودے سے سرنج کے ذریعے حاصل کئے جاتے ہیں ،کبھی براہ راست جسم کے کسی حصے سے ٹشوز لیے جاتے ہیں۔ 

(یہ معلومات انٹرنیٹ پے اس موضوع پے  تحقیق کر کے اس کا خلاصہ پیش کیا گیا ہے۔ چونکہ کوئی فیلڈ سے متعلق ماہر نہیں ملا اور یہ پیچیدہ موضوع ہے ،اس  لیے اس میں صحیح اور غلط دونوں کا امکان ہے)

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

خلیوں(cells) اور بافت(tissues) سے جو مختلف اعضاء بنائے جاتے ہیں  ، اس کے طریقہ کار میں کچھ امور حکم شرعی کے حوالے سے اہم ہیں ۔

  1. خلیے جن سے بافت اور پھر بافت سے اعضاء بنائے جاتے ہیں،  وہ کہاں سے حاصل کیے گئے ؟
  2. ان خلیوں کے حصول کا طریقہ کار کیا ہے؟
  3. (scaffold) کا سورس کیا ہے ؟
  1. خلیے جن سے بافت یا پھر اعضاء بنائے جاتے ہیں  وہ عام طور پر خود مریض یا پھر کسی عطیہ کرنے والے سے حاصل کیے جاتے ہیں،جانوروں سے اعضاء بنانے کے لیے خلیے حاصل کرنا معمول نہیں ہے۔کیونکہ ان خلیوں  کی انسانی  قوت مدافعت کے ساتھ مطابقت نہیں ہو پاتی ۔
  2. خلیے حاصل کرنے کا طریقہ کار عموما خون حاصل کرنے کے طریقہ کار کے مشابہ ہے ۔سوائے اس کے جب کسی جسم سے ٹشوزکاٹ کے  حاصل کیے جائیں۔
  3. (scaffold) جو کہ خلیوں کی تین زاویوں (3D) میں نشونما کے لیے استعمال ہوتے ہیں، انہیں بائیومیٹیریل بھی کہا جاتا ہے۔ (scaffold) کا اصل کام تو خلیوں کا نشونما ہوتا ہے، لیکن ان کی خاص بات یہ ہے کہ یہ مصنوعی اعضاء کا حصہ بھی بن جاتے ہیں ۔سکیفولڈ حیوانات سے بھی حاصل کیا جاتا ہے جسے قدرتی یا نیچرل سکیفولڈ کہتے ہیں ۔اور لیبارٹری میں بھی بنایا جاتا ہے جسے کیمیائی سکیفولڈ(synthetic scaffold)۔قدرتی ذرائع میں گائے ، خنزیر، گھوڑے ،مچھلی اور پرندے شامل ہیں ۔

اس تفصیل کے مطابق ان مصنوعی اعضاء کا شرعی حکم درجہ ذیل معلوم ہوتا ہے۔

  1. کسی بھی عضو میں اصل مدار خلیوں پر ہوتا ہے ،باقی چیزیں صرف ان خلیوں  کی نشونما اور انہیں ایک خاص  شکل دینے کے لیے ہوتی ہیں ۔خلیے اگر خون سے  یا ہڈی  کے گودے سے سرنج کے ذرئعے سے حاصل کیے گئے ہوں،  تو یہ خون کے حکم میں ہوں گے ،  ضرورت کے وقت ان کا مریض سے حاصل کرنا یا عطیہ کرنا جائز ہوگا  ۔
  2. اگر ٹشوز(یافت) کاٹ کر الگ کئے جائیں اور مقصد تزیین و آرائش نہ ہو بلکہ کسی عیب کو دور کرنا ہو  ،تو اس صورت میں خود مریض کے جسم کے حصے سے یہ گوشت لینے کی گنجائش ہوگی ، جیسے بالوں کی سرجری میں یہی حکم لگایا جاتا ہے۔
  3. سکیفولڈ خنزیر کےجسم سے بنانا اور ایسا سکیفولڈ استعمال کرنا جائز نہیں،کیونکہ وہ نجس العین ہے ، خنزیر کے علاوہ دوسرے جانوروں کے خلیوں سے حاصل کئے گئے ہوں تو اس کی تفصیل یہ  ہے۔ سکیفولڈکے حصول میں     جانور کے جسم کے مختلف حصوں سےٹشوزلے کرانہیں ایک عمل سے گزار ا جاتا ہے، اس عمل کو ڈی سیلیولرائزیشن  Decellularization) (کہتے ہیں ۔ جس کے زریعے ان ٹشوز سے (ECM)کو  الگ کیا جاتا ہے۔

 extracellular matrix) (ECM کے بارے جو بات سامنے آئے اس کے مطابق یہ غیر حیات((non-living molecules   کا  مجموعہ ہوتا ہے ۔ ڈی سیلیولرائزیشن    میں جاندار اجزاء الگ کر دیے جاتےہیں، صرف غیر جاندار  اجزاء کو باقی رکھا جاتا ہے ۔ امام ابوحنیفہ رح کے اصول کے مطابق "ما لا تحلہ  الحیات " کی طہارت کے لیے ذبح ضروری نہیں ہے۔ " ماتحلہ الحیات  اور مالا تحلہ الحیات"میں آیا میڈکل کی ریسرچ کا اعتبار ہوگا یا نہیں ، بظاہر اس میں علماء نے قدیم فقہاء کی تصریحات کا اعتبار کیا ہے ، کیونکہ (ECM) کا ایک جزء  كولوجن (Collagen) ہے،جس سے جیلٹن بنایا جاتا ہے ، فتاوی عثمانی میں ہڈی سے حاصل ہونے والے کولوجن کو  پاک جبکہ چمڑے سے حاصل ہونے والے کولوجن کو پاک تو کہا لیکن اس وجہ سے نہیں کہ وہ مالاتحلہ الحیات ہےبلکہ اس وجہ سے کہ اس کے حاصل کرنے کا عمل ایسا ہے جس سے دباغت کا عمل ہو ہی جاتا ہے۔ اس بنیاد پر کہا جاسکتا ہے کہ اگر (ECM)مذبوحہ جانوروں سے حاصل کیا جائے تو کوئی حرج نہیں ، اگر غیر مذبوحہ جانو ر سے حاصل کیا جائے تو جانور کی ہڈی ،بال ، دانت،سينگ یا کھر سے حاصل کیے گئے ہوں تو بھی طاہر ہوں گے  ، اگر چمڑے سے حاصل کئے گئے ہوں تو دی سیلولرائزیشن کے عمل میں اگر دباغت ہو جاتی ہے یا ویسے اس کی دباغت کر لی جائے تو بھی یہ پاک ہوں گے۔لیکن اگر (ECM)غیر مذبوحہ جانور کے دوسرے اجزاء جس میں حیات ہوتی ہے ان سے حاصل کئے جائیں تو یہ ناپاک ہوں گے، چونکہ یہ مصنوعی عضو  کا حصہ بنتا ہے تو  اس کا استعمال صحیح معلوم نہیں ہوتا۔الا یہ کہ مہلک بیماری ہو ،کوئی اورمتبادل علاج   نہ ہو ،دیندار طبیب بتا دے کہ اس کے علاج کی کوئی اور صورت ممکن نہیں تو بقدر ضرورت تداوی بالمحرم کے اصول کے تحت گنجائش ہوگی۔

حوالہ جات

الموسوعة الفقهية الكويتية» (11/ 119):

«وشرط الحنفية لجواز ‌التداوي بالنجس والمحرم أن يعلم أن فيه شفاء، ولا يجد دواء غيره، قالوا: وما قيل إن الاستشفاء بالحرام حرام غير مجرى على إطلاقه، وإن الاستشفاء بالحرام إنما لا يجوز إذا لم يعلم أن فيه شفاء، أما إذا علم، وليس له دواء غيره، فيجوز

«حاشية ابن عابدين = رد المحتار ط الحلبي» (1/ 210):

اختلف في ‌التداوي ‌بالمحرم وظاهر المذهب المنع كما في رضاع البحر، لكن نقل المصنف ثمة وهنا عن الحاوي: وقيل يرخص إذا علم فيه الشفاء ولم يعلم دواء آخر كما رخص الخمر للعطشان وعليه الفتوى

 (قوله اختلف في ‌التداوي ‌بالمحرم) ففي النهاية عن الذخيرة يجوز إن علم فيه شفاء ولم يعلم دواء آخر. وفي الخانية في معنى قوله عليه الصلاة والسلام «إن الله لم يجعل شفاءكم فيما حرم عليكم» كما رواه البخاري أن ما فيه شفاء لا بأس به كما يحل الخمر للعطشان في الضرورة، وكذا اختاره صاحب الهداية في التجنيس فقال: لو رعف فكتب الفاتحة بالدم على جبهته وأنفه جاز للاستشفاء، وبالبول أيضا إن علم فيه شفاء لا بأس به، لكن لم ينقل وهذا؛ لأن الحرمة ساقطة عند الاستشفاء كحل الخمر والميتة للعطشان والجائع. اهـ من البحر. وأفاد سيدي عبد الغني أنه لا يظهر الاختلاف في كلامهم لاتفاقهم على الجواز للضرورة، واشتراط صاحب النهاية العلم لا ينافيه اشتراط من بعده الشفاء ولذا قال والدي في شرح الدرر: إن قوله لا للتداوي محمول على المظنون وإلا فجوازه باليقيني اتفاق كما صرح به في المصفى. اهـ.

أقول: وهو ظاهر موافق لما مر في الاستدلال، لقول الإمام: لكن قد علمت أن قول الأطباء لا يحصل به العلم. والظاهر أن التجربة يحصل بها غلبة الظن دون اليقين إلا أن يريدوا بالعلم غلبة الظن وهو شائع في كلامهم تأمل

«الموسوعة الفقهية الكويتية» (21/ 173):

أثر الذكاة في الحيوان غير المأكول:

 ذهب الحنفية إلى أن الحيوان الذي لا يؤكل:

  1. إن كان نجسا حيا وميتا كالخنزير لم يقبلالذكاة؛ لأنها إنما تفيد بقاء الطهر ولا تقلب النجس طاهرا.
  2. وإن كان طاهرا حيا وميتا - وهو ما ليس له نفس سائلة كالنمل والنحل - فلا حاجة إلى تذكيته؛ لأن طهره باق.
  3. وإن كان طاهرا في الحياة نجسا بالموت كالحمار الأهلي فهو صالح للتذكية ولها فيه أثران:

الأول: بقاء طهره ولولا التذكية لتنجس بالموت.

والثاني: حل الانتفاع بجلده وشعره دون حاجة إلى دباغ

محمد سعد ذاكر

دارالافتاء جامعہ الرشید،کراچی

30/محرم الحرام /1446ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد سعد ذاکر بن ذاکر حسین

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب