03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
انسانی اعضاء کی پیوندکاری
84448جائز و ناجائزامور کا بیانعلاج کابیان

سوال

ایک  انسان کے اندرونی اور بیرونی اعضاء ہم کسی دوسرے کو لگا سکتے ہیں؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

اعضاء کی پیوندکاری(Transplantation)  کے جائزہونے اورنہ ہونے کے حوالہ سے اہل علم میں اختلاف ہے،برصغیرپاک وہندکے اکثرعلماء کے نزدیک اعضاء کی منتقلی(Transplantation) جائزنہیں،جبہ مجمع الفقہ الاسلامی جدہ،فقہ اکیڈمی انڈیااورعرب علماء اس کے جواز کے قائل ہیں،جواہل علم جوازکے  قائل ہیں ان کے نزدیک بنیادی طورپردوصورتیں بنتی ہیں اورہرایک صورت کے جوازکی کچھ شرطیں ہیں:

زندہ شخص سے اس کی اجازت سے عضومنتقل کرنے کے جائزہونےکی درج ذیل شرطیں ہیں:

  1. اس عمل سے عضو دینے والے شخص کی طبعی زندگی کو کوئی بڑانقصان نہ پہنچے۔
  2. اس کاکوئی ایساعضونہ نکالاجائے جس پراس کی حیات موقوف ہو جیسے دل وغیرہ۔
  3. کسی ایسے عضو کی منتقلی جائز نہیں جس کے جدا کرنے سے انسان کسی اساسی وظیفہ سے محروم ہوجائے جیسےدونوں آنکھیں وغیرہ۔
  4. زندہ جسم سے صرف وہ عضو لیا جائے جس کے متعلق ڈاکٹر نے طے کردیا ہو کہ اس کا جسم کے اندر رہنا ضروری نہیں، اس کے بغیر زندگی بآسانی گزاری جاسکتی ہے۔
  5. کسی  عضو کی کوئی قیمت نہ لی جائے۔
  6. انتقال اس صورت میں جائزہے  جس کوعضودیاجارہاہے اس کی زندگی کی بقاء ماہرین کی رائے کے مطابق اس عضو کی منتقلی پرموقوف ہو،جیسے کسی کےدونوں گردے ناکارہ ہوگئے ہوں وغیرہ۔

کسی مردے سے اعضاء لیے جائیں تواس کی شرطیں درج ذیل ہیں:

  1. معتمد اورماہراطباء بتائیں کہ پیوندکاری کے سوا مریض کاکوئی دوسراعلاج ممکن نہیں ہے۔
  2. اس بارے میں ظن غالب ہوکہ اس عضو کی منتقلی سے مریض کوشفاحاصل ہوجائے گی۔
  3. حتی الامکان کسی مسلمان کاکوئی عضوکسی کافرکواورکسی کافر کاعضو مسلمان کونہ لگایاجائے۔
  4. مرنے والا شخص مکلف ہو اور اس نے موت سے پہلے منتقلی کی تحریری اجازت دے دی ہو۔

 البتہ مجمع الفقہ الاسلامی جدہ کے فیصلے میں ورثا کو بھی اختیار دیا گیا ہے کہ اگر میت نے زندگی میں وصیت نہ کی ہو تو موت کے بعد ورثا کی اجازت بھی کافی ہے، اور اگر متوفی شخص لاوارث ہو تو مسلمانوں کے ولی الامر نے اجازت دے دی ہو۔

       5.  عضو کی منتقلی کے بعد جسم میں کوئی ایسی تبدیلی نہ ہو جومثلہ کے مشابہ ہو۔

        6. مُردہ جسم سے مطلوبہ عضو کو تدفین سے پہلے پہلے نکال لیا جائے، تدفین کے بعد نہیں۔

       7. انتقال اس صورت میں جائزہے جس کوعضودیاجارہاہے اس کی زندگی یااس  کے کسی عضو کاکوئی اساسی وظیفہ اس پرموقوف ہو،جیسے کوئی دونوں آنکھوں کی بینائی سے محروم ہو اوراس کومردے سے ایک آنکھ منتقل کرکے لگائی جائے تاکہ وہ دیکھنے کے قابل ہوسکے۔

      8.  کسی عضوکی کوئی قیمت نہ لی جائے۔

احتیاط بہرحال اسی میں ہے کہ حتی الامکان اس طریقۂ علاج سے اجتناب کیا جائے، البتہ اگر کوئی شخص شدید مجبوری میں مبتلا ہو اور وہ جواز کی رائے رکھنے والے علمائے کرام کی رائے پر عمل کرلے تو امید ہے کہ عنداللہ معذورہوگا۔ تاہم جواز والے قول پر عمل کرنے کی صورت میں احتیاطاً استغفار اور کچھ صدقہ و خیرات بھی کرے۔

حوالہ جات

الفقه الإسلامي وأدلته ( 7 /  127)

أولاً: يجوز نقل العضو من مكان من جسم الإنسان إلى مكان آخر من جسمه، مع مراعاة التأكد من أن النفع المتوقع من هذه العملية أرجح من الضرر المترتب عليها، وبشرط أن يكون ذلك لإيجاد عضو مفقود أو لإعادة شكله أو وظيفته المعهودة له، أو لإصلاح عيب أو إزالة دمامة تسبب للشخص أذى نفسياً أو عضوياً.

ثانياً : يجوز نقل العضو من جسم إنسان إلى جسم إنسان آخر، إن كان هذا العضو يتجدد تلقائياً، كالدم والجلد، ويراعى في ذلك اشتراط كون الباذل كامل الأهلية، وتحقق الشروط الشرعية المعتبرة.

ثالثاً : تجوز الاستفادة من جزء من العضو الذي استؤصل من الجسم لعلة مرضية لشخص آخر، كأخذ قرنية العين لإنسان ما عند استئصال العين لعلة مرضية.

رابعاً : يحرم نقل عضو تتوقف عليه الحياة كالقلب من إنسان حي إلى إنسان آخر.

خامساً : يحرم نقل عضو من إنسان حي يعطل زواله وظيفة أساسية في حياته وإن لم تتوقف سلامة أصل الحياة عليها كنقل قرنية العينين كلتيهما، أما إن كان النقل يعطل جزءاً من وظيفة أساسية فهو محل بحث ونظر كما يأتي في الفقرة الثامنة.

سادساً : يجوز نقل عضو من ميت إلى حي تتوقف حياته على ذلك العضو، أو تتوقف سلامة وظيفة أساسية فيه على ذلك. بشرط أن يأذن الميت أو ورثته بعد موته، أو بشرط موافقة وليّ المسلمين إن كان المتوفى مجهول الهوية أو لا ورثة له. سابعاً : وينبغي ملاحظة أن الاتفاق على جواز نقل العضو في الحالات التي تم بيانها، مشروط بأن لا يتم ذلك بوساطة بيع العضو. إذ لا يجوز إخضاع أعضاء الإنسان للبيع بحال ما.

أما بذل المال من المستفيد، ابتغاء الحصول على العضو المطلوب عند الضرورة أو مكافأة وتكريماً، فمحل اجتهاد ونظر.

ثامناً : كل ما عدا الحالات والصور المذكورة، مما يدخل في أصل الموضوع، فهو محل بحث ونظر، ويجب طرحه للدراسة والبحث في دورة قادمة، على ضوء المعطيات الطبية والأحكام الشرعية۔

محمد سعد ذاكر

دارالافتاء جامعہ الرشید،کراچی

30/محرم الحرام /1446ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد سعد ذاکر بن ذاکر حسین

مفتیان

محمد حسین خلیل خیل صاحب / سعید احمد حسن صاحب