84533 | طلاق کے احکام | صریح طلاق کابیان |
سوال
4۔عورت نافرمانی کرتی تھی،اس لئے کھبی کبھار ڈرانے کے لئے زاہد سخت الفاظ استعمال کرتا تھا،مثلا تم کو آزاد کررہا ہوں وغیرہ،طلاق کی قطعا نیت نہیں ہوتی تھی۔
تنقیح:سائل سے اس سوال سے متعلق پوچھنے پر اس نے بتایا کہ اس نے صرف ایک بار ہی یہ الفاظ استعمال کئے ہیں اس موقع پر جب بیوی شوہر کی اجازت کے بغیر میکے چلے گئی تھی،مزید یہ کہ لفظ "آزاد" ان کے عرف میں صرف طلاق کے لئے متعین نہیں ہے۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
لفظ" آزاد" اپنی اصل وضع کے لحاظ سے طلاق کے کنایہ الفاظ میں سے ہے،جس سے عام نارمل حالت میں طلاق واقع ہونے کا مدار نیت پر ہوتا ہے،البتہ ٕغصے اور مذاکرہ طلاق کی حالت میں اس سے بغیر نیت کے بھی طلاق واقع ہوجاتی ہے،تاہم اگر یہ لفظ بولنے والے شخص کی برادری اور وہاں کےلوگوں کے عرف میں طلاق کے معنی کے لیے اس طرح متعین ہوجائے کہ جب بھی شوہر بیوی کے سامنے یہ لفظ بولے تو اس سے طلاق ہی کا معنی مراد لیا جاتا ہو،اس کے علاوہ کوئی اور معنی مراد نہ ہوتا ہو تو پھر اس صورت میں اس پر صریح طلاق کا حکم لگے گا،یعنی اس کے ذریعے طلاق رجعی واقع ہوگی۔
اگرچہ آپ کے عرف میں لفظ "آزاد "صرف طلاق ہی کے معنی کے لئے متعین نہیں،لیکن چونکہ آپ نے غصے کی حالت میں بیوی سے یہ الفاظ بولے تھے،اس لئے اس جملے(میں تم کو آزاد کررہا ہوں) کے ذریعے بھی ایک بائن طلاق واقع ہوگئی تھی۔
لہذا اگر سابقہ سوال میں ذکر کی گئی تفصیل کے مطابق اس لفظ کو کہنے سے پہلےدو طلاقیں واقع ہوگئی تھیں تو پھراس لفظ کےساتھ تین طلاقیں پوری ہونے کی وجہ سے بیوی شوہر پر حرمت غلیظہ کے ساتھ حرام ہوگئی تھی،جس کے بعد ان دونوں کا دوبارہ نکاح بھی ممکن نہیں رہا،جس کی وجہ سے فوری طور پر ایک دوسرے سے علیحدگی لازم ہے اور اب تک ساتھ رہنے پر سچے دل سے کثرت کے ساتھ توبہ و استغفار ضروری ہے۔
البتہ اگر سابقہ سوال میں ذکر کی گئی تفصیل کے مطابق پہلے والے میسج سے دو طلاقیں واقع نہیں ہوئیں تو پھر اس طلاق بائن کے بعد دوبارہ رشتہ ازدواج میں منسلک ہونے کے لئے نئے مہر کے ساتھ تجدید ِنکاح ضروری ہے،اس کے بغیر ساتھ رہنا جائز نہیں اور اس کے بعد شوہر کے پاس صرف دو طلاقوں کا اختیار باقی رہ جائے گا۔
حوالہ جات
"الدر المختار " (3/ 300):
"ونحو اعتدي واستبرئي رحمك، أنت واحدة، أنت حرة، اختاري أمرك بيدك سرحتك، فارقتك لا يحتمل السب والرد، ففي حالة الرضا) أي غير الغضب والمذاكرة (تتوقف الأقسام) الثلاثة تأثيرا (على نية) للاحتمال والقول له بيمينه في عدم النية ويكفي تحليفها له في منزله، فإن أبى رفعته للحاكم فإن نكل فرق بينهما. مجتبى.
(وفي الغضب) توقف (الأولان) إن نوى وقع وإلا لا (وفي مذاكرة الطلاق) يتوقف (الأول فقط) ويقع بالأخيرين وإن لم ينو؛ لأن مع الدلالة لا يصدق قضاء في نفي النية ؛لأنها أقوى لكونها ظاهرة، والنية باطنة".
قال العلامة ابن عابدین رحمہ اللہ :" (قوله أنت حرة) أي لبراءتك من الرق أو من رق النكاح وأعتقتك مثل أنت حرة كما في الفتح، وكذا كوني حرة أو اعتقي كما في البدائع نهر.....
(قوله توقف الأولان) أي ما يصلح ردا وجوابا وما يصلح سبا وجوابا ولا يتوقف ما يتعين للجواب،بيان ذلك :
أن حالة الغضب تصلح للرد والتبعيد والسب والشتم كما تصلح للطلاق، وألفاظ الأولين يحتملان ذلك أيضا فصار الحال في نفسه محتملا للطلاق وغيره، فإذا عنى به غيره فقد نوى ما يحتمله كلامه ولا يكذبه الظاهر فيصدق في القضاء، بخلاف الألفاظ الأخير: أي ما يتعين للجواب ؛لأنها وإن احتملت الطلاق وغيره أيضا لكنها لما زال عنها احتمال الرد والتبعيد والسب والشتم اللذين احتملتهما حال الغضب ،تعينت الحال على إرادة الطلاق فترجح جانب الطلاق في كلامه ظاهرا، فلا يصدق في الصرف عن الظاهر، فلذا وقع بها قضاء بلا توقف على النية كما في صريح الطلاق إذا نوى به الطلاق عن وثاق".
محمد طارق
دارالافتاءجامعۃالرشید
01/صفر1445ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | محمد طارق غرفی | مفتیان | مفتی محمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب |