84536 | طلاق کے احکام | طلاق کے متفرق مسائل |
سوال
دارالافتاء بنوری ٹاؤن کا فتوی بھی یہی ہے کہ تحریری طلاق میں عورت کی طرف نسبت ضروری ہے،مثلا عورت کا نام"فلانہ طلاق ہے،یا میری بیوی طلاق ہے" کا لفظ ضروری ہے۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
یہ بات درست ہے کہ طلاق چاہے زبانی دی جائے یا تحریری،دونوں صورتوں میں طلاق کے جملوں میں عورت کی طرف نسبت ضروری ہے،لیکن طلاق کے وقوع کے لئے بیوی کی طرف حقیقی نسبت(شوہر خطاب کی ضمیر کے ساتھ بیوی کی طرف صراحت کے ساتھ نسبت کرے،مثلا میں نے تجھے طلاق دی) ضروری نہیں،بلکہ معنوی نسبت بھی کافی ہے،معنوی نسبت کا مطلب یہ ہے کہ شوہر کے الفاظ میں خطاب کی ضمیر کے ساتھ بیوی کی طرف لفظوں میں طلاق کی نسبت موجود نہ ہو،بلکہ اسم ظاہر،خطاب کے علاوہ دیگر ضمائر یا صرف اسم اشارہ کے ذریعے بیوی کی طرف طلاق کی نسبت ہو، مثلا زینب کو طلاق،میری بیوی کو طلاق،یا بیوی کی طرف اشارہ کرکے کہے:اسے طلاق ،یا ان کے علاوہ دیگر ایسے قرائن موجود ہوں جن سے معلوم ہورہا ہو کہ یہ بیوی کو ہی طلاق دے رہا ہے،اضافت معنویہ کے قرائن درج ذیل ہیں:
(ا)تخاطب ،مثلا بیوی کو مخاطب کرکے کہے :طلاق ہے،یاصرف طلاق،طلاق،طلاق کہے۔
(۲)نیت،مثلا کسی نے بیوی کی طرف نسبت اور تخاطب کے بغیر صرف طلاق کے الفاظ کہے،مثلا شوہر نے کہا:طلاق ہے اور پوچھنے پر اس نے کہا کہ بیوی کو طلاق دینا مقصود تھا تو طلاق واقع ہوجائے گی۔
(۳)مذاکرہ طلاق،مثلا بیوی کہے :مجھے طلاق دو اور شوہر جواب میں کہے: دیدی،یا بیوی کے علاوہ کوئی اور شوہر سے اس کی بیو ی کی طلاق کا مطالبہ کرے اور شوہر جواب میں بیوی کی طرف نسبت کیے بغیر طلاق کے الفاظ کہہ دے،یا ایک بار بیوی کی طرف نسبت کرکے طلاق کے الفاظ کہنے کے بعد بغیر نسبت کے مزید الفاظ کہے،مثلا ایک بار کہے:میں نے اپنی بیوی کو طلاق دی، اور اس کے متصل بعد کہے:طلاق دی،طلاق دی۔
(۴) امداد الفتاوی (2/ 446)اور دیگر کتب فقہ میں نسبت معنویہ کا ایک قرینہ عرف کو بھی قرار دیا گیا ہے،یعنی طلاق کے معنی کے محتمل جو الفاظ اور تعبیرات عرف میں طلاق کے لیے متعین ہوجائیں ان سے حقیقی نسبت کے بغیر بھی طلاق ہوجائے گی،جیسے کوئی "الطلاق یلزمنی" یعنی مجھ پر طلاق لازم ہے،ایسے عرف میں استعمال کرے جس میں ان الفاظ سے بھی طلاق دی جاتی ہو،یا مثلا ہمارے عرف میں یہ کہے کہ" مجھ پر حرام ہے"۔
مذکورہ صورت میں طلاق کے جملوں میں بظاہر صریح نسبت بھی موجود ہے،لیکن اگر صریح نسبت نہ بھی ہو تو طلاق کے وقوع کے لئے معنوی نسبت (تخاطب یعنی عورت کا مخاطب ہونا)بھی کافی ہے اور وہ ان میں یقینا موجود ہے اس طور پر کہ شوہر کا بیوی کے نمبر پر میسج کرنا اس کومخاطب کرنا ہے اور تخاطب نسبت معنویہ کے ثبوت کے لئے کافی ہے۔
حوالہ جات
بالتشديد قيد بخطابها، لأنه لو قال: إن خرجت يقع الطلاق أو لا تخرجي إلا بإذني فإني حلفت بالطلاق فخرجت، لم يقع لتركه الإضافة إليها".
قال ابن عابدین رحمہ اللہ ":(قوله: لتركه الإضافة) أي المعنوية فإنها الشرط والخطاب من الإضافة المعنوية، وكذا الإشارة، نحو :هذه طالق، وكذا نحو :امرأتي طالق وزينب طالق. اهـ.
أقول: وما ذكره الشارح من التعليل أصله لصاحب البحر أخذا من قول البزازية في الأيمان قال لها: لا تخرجي من الدار إلا بإذني فإني حلفت بالطلاق فخرجت، لا يقع لعدم حلفه بطلاقها، ويحتمل الحلف بطلاق غيرها فالقول له. اهـ. ومثله في الخانية، وفي هذا الأخذ نظر، فإن مفهوم كلام البزازية أنه لو أراد الحلف بطلاقها يقع؛ لأنه جعل القول له في صرفه إلى طلاق غيرها، والمفهوم من تعليل الشارح تبعا للبحر عدم الوقوع أصلا لفقد شرط الإضافة، مع أنه لو أراد طلاقها تكون الإضافة موجودة ويكون المعنى: فإني حلفت بالطلاق منك أو بطلاقك، ولا يلزم كون الإضافة صريحة في كلامه؛ لما في البحر لو قال: طالق فقيل له من عنيت؟ فقال امرأتي طلقت امرأته. اهـ. على أنه في القنية قال عازيا إلى البرهان صاحب المحيط: رجل دعته جماعة إلى شرب الخمر فقال: إني حلفت بالطلاق أني لا أشرب وكان كاذبا فيه ثم شرب طلقت. وقال صاحب التحفة: لا تطلق ديانة اهـ .
وما في التحفة لا يخالف ما قبله؛ لأن المراد طلقت قضاء فقط، لما مر من أنه لو أخبر بالطلاق كاذبا لا يقع ديانة بخلاف الهازل، فهذا يدل على وقوعه وإن لم يضفه إلى المرأة صريحا، نعم يمكن حمله على ما إذا لم يقل :إني أردت الحلف بطلاق غيرها فلا يخالف ما في البزازية ويؤيده ما في البحر لو قال: امرأة طالق أو قال طلقت امرأة ثلاثا وقال لم أعن امرأتي يصدق اهـ .
ويفهم منه أنه لو لم يقل ذلك تطلق امرأته؛لأن العادة أن من له امرأة إنما يحلف بطلاقها لا بطلاق غيرها، فقوله :إني حلفت بالطلاق ينصرف إليها ما لم يرد غيرها ؛لأنه يحتمله كلامه، بخلاف ما لو ذكر اسمها أو اسم أبيها أو أمها أو ولدها فقال: عمرة طالق أو بنت فلان أو بنت فلانة أو أم فلان، فقد صرحوا بأنها تطلق، وأنه لو قال: لم أعن امرأتي لا يصدق قضاء إذا كانت امرأته كما وصف كما سيأتي قبيل الكنايات .
وسيذكر قريبا أن من الألفاظ المستعملة: الطلاق يلزمني، والحرام يلزمني، وعلي الطلاق، وعلي الحرام، فيقع بلا نية للعرف إلخ. فأوقعوا به الطلاق مع أنه ليس فيه إضافة الطلاق إليها صريحا، فهذا مؤيد لما في القنية، وظاهره أنه لا يصدق في أنه لم يرد امرأته للعرف، وﷲ أعلم".
محمد طارق
دارالافتاءجامعۃالرشید
01/صفر1445ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | محمد طارق غرفی | مفتیان | مفتی محمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب |