03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
جملہ”طلاق دے رہا ہوں” کہنے سے طلاق کا حکم
84534طلاق کے احکامصریح طلاق کابیان

سوال

5۔جملہ" طلاق دے رہا ہوں "حال جاری ہے،مگر عام محاورے میں مستقبل کے لئے استعمال ہوتا ہے،مثلا لاہور جارہا ہوں،کراچی آرہا ہوں،اردو میں تو عام طور پر بعد میں آنا ہوتا ہے،یعنی آنے کے لئے تیار ہے،سفر شروع نہیں ہوا،لہذا طلاق کے بارے میں بھی یہ مطلب ہوگا کہ طلاق دی نہیں ہے،دے رہا ہے،کیا ان الفاظ سے طلاق واقع ہوگی کہ نہیں؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

5۔اردو میں" طلاق دے رہا ہوں"  کا جملہ حال کے معنی میں صریح ہے،قرائن کی موجودگی میں اس سے مستقبل کا معنی مراد ہوتا ہے اور جس جملے کا غالب استعمال حال کے معنی میں ہو اس سے طلاق واقع ہوجاتی ہے،اس لئے  عام حالات میں مذکورہ جملے سے بھی طلاق واقع ہوجائے گی،الا یہ کہ سیاق و سباق میں ایسے قرائن موجود ہوں جو اس کے مستقبل کے معنی میں ہونے پرواضح دلالت کریں،تو ایسے میں اگر شوہر مستقبل کا معنی مراد ہونے کا دعوی کرے تو قسم کے ساتھ اس کی بات کی تصدیق کی جائے گی۔

حوالہ جات

"الفتاوى الهندية "(1/ 384):

"في المحيط: لو قال بالعربية: أطلق، لا يكون طلاقا إلا إذا غلب استعماله للحال فيكون طلاقا".

"الدر المختار" (3/ 248):

"(ويقع بها) أي بهذه الألفاظ وما بمعناها من الصريح".

قال العلامة ابن عابدین رحمہ اللہ:"(قوله: وما بمعناها من الصريح) أي مثل ما سيذكره من نحو: كوني طالقا واطلقي ويا مطلقة!بالتشديد، وكذا المضارع إذا غلب في الحال مثل أطلقك كما في البحر. قلت: ومنه في عرف زماننا: تكوني طالقا، ومنه: خذي طلاقك فقالت: أخذت، فقد صرح الوقوع به بلا اشتراط نية كما في الفتح، وكذا لا يشترط قولها:" أخذت" كما في البحر".

"منحة الخالق " (3/ 271):

" (قوله: إلا إذا غلب استعماله في الحال) قال الرملي: يستفاد منه الوقوع بقوله: تكوني طالقا أو تكون طالقا، إذ هوالغالب في كلام أهل بلادنا،تأمل اهـ".

محمد طارق

دارالافتاءجامعۃالرشید

01/صفر1445ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد طارق غرفی

مفتیان

مفتی محمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب