84535 | طلاق کے احکام | تحریری طلاق دینے کا بیان |
سوال
6۔میسج کو تحریر شمار کیا جائے یا الفاظ؟ اگر تحریر ہے تو اس سے کن شرائط پر طلاق واقع ہوگی؟
7۔مندرجہ بالا میسج سے طلاق واقع ہوگی کہ نہیں؟ اور کس قسم کی طلاق واقع ہوگی،صریح یا کنایہ؟
8۔ کتاب" الفقہ علی المذاہب الاربعة" میں فقہِ حنفی میں تحریری طلاق واقع ہونے کے لئے دوشرطیں مذکور ہیں:
پہلی یہ کہ تحریر ثابتہ ہو،یعنی کاغذ،تختی وغیرہ پر روشنائی سے تحریر ہو اور تحریر مفہوم ہو،اگر انگلی سے ہوا یا پانی میں یا تختی پر بغیر سیاہی کے لکھے تو اس کا اعتبار نہیں۔
دوسری یہ کہ صیغہ طلاق مع عنوان عورت کانام،یا میری زوجہ کا لفظ لکھا ہو تو طلاق واقع ہوگی،یعنی یہ لکھے کہ فلانة !انت طالق،اگر کتابت بغیر عنوان کے ہو تو طلاق واقع نہیں ہوگی،یعنی عورت کا نام،یا زوجہ کا لفظ ذکر نہ ہو تو طلاق واقع نہیں ہوگی،جبکہ حنابلہ کے مذہب کے مطابق صریح الفاظ سے بلانیت طلاق واقع ہوگی،البتہ اگر طلاق کے علاوہ کوئی اور نیت کرے،مثلا عورت کو ڈرانے وغیرہ کی تو اس کی نیت معتبر ہوگی۔
حنفی مذہب کے مطابق میسج کی تحریر میں پہلی شرط مفقود ہے کہ یہ تحریر ثابتہ نہیں ہے،بلکہ پانی پر لکھی گئی تحریر کی طرح مٹ سکتی ہے اور اگر تختی پر شمار کیا جائے تو سیاہی کے بغیر تحریر ہے،لہذا مندرجہ بالا موبائل میسج کے بارے میں تحقیق فرما کر شرعی حکم اور فتوی جاری فرمائیں۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
میسج تحریر کے حکم میں ہے اور آپ نے طلاق کے وقوع کےبارےمیں "الفقہ علی المذاہب الاربعة" کے حوالے سے جن دو شرائط کا ذکر کیا ہے،ان میں سے پہلی شرط کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ تحریر ایسی ہو جسے پڑھا اور سمجھا جاسکتا ہو،جسے دیگر فقہاء نے کتابتِ مستبینہ سے تعبیر کیا ہے،اس کے لئے تحریر کا کسی ٹھوس چیز پر ہونا،یا سیاہی سے لکھنا شرط نہیں،یہی وجہ ہے کہ اسی کتاب میں اس شرط پر تفریع کرتے ہوئے یہ مسئلہ مذکور ہے کہ اگر کاغذ پر بھی ایسی تحریر لکھی جائے جو پڑھنے اور سمجھنے کے قابل نہ ہو تو کاغذ پر ہونے کے باوجوداس سے طلاق واقع نہیں ہوگی۔
" الفقه على المذاهب الأربعة" (4/ 258):
"أما الكتابة فإنها تقوم مقام اللفظ بشرطين: الشرط الأول أن تكون ثابتة بأن يكتب على ورقة، أو لوح، أو حائط بقلم ومداد كتابة يمكن قراءتها وفهمها، فإذا كتب أنت طالق بأصبعه على الماء، أو في الهواء، أو على فراش، أو على لوح بدون مداد فإنها لا تعتبر طلاقاً وكذا إذا كتب كتابة ثابتة بمداد على ورق ونحوه، ولكنها لا تفهم ولا تقرأ، فإنها لا تعتبر طلاقاً حتى ولو نوى بها الطلاق".
جبکہ دوسری شرط کا مقصد اس تحریر کا معروف و معتاد طریقے پر ہونا،جسے کتابتِ مرسومہ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
اس لئے میسج پر لکھی گئی تحریر اگر مرسومہ ہو تو اس سے بغیر نیت کے بھی طلاق واقع ہوجائے گی،جبکہ غیر مرسومہ ہونے کی صورت میں بغیر نیت کے طلاق واقع نہیں ہوگی۔
میسج پر لکھی گئی تحریر کے مستبین ہونے میں تو کوئی شک نہیں،البتہ میسج کو متعلقہ نمبر پر بھیجنے سے پہلے اس کا مرسوم یا غیر مرسوم ہونا فی الحال زیر غور ہے،جیسے ہی کوئی حتمی فیصلہ ہوگا آپ کو ارسال کردیا جائے گا،تاہم اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ اگر شوہر میسج لکھنے کے بعد بیوی کے نمبر پر بھیج دے تو بظاہر انشاء کی نیت اور زوجہ کی جانب طلاق کی نسبت(حقیقی یا معنوی) پائے جانے کی وجہ سے طلاق واقع ہوجائے گی۔
سوال میں مذکور میسج کا حکم پہلے سوال کے جواب کے تحت ذکر کیا جا چکا ہے۔
حوالہ جات
"بدائع الصنائع " (3/ 100):
"وكذا التكلم بالطلاق ليس بشرط فيقع الطلاق بالكتابة المستبينة وبالإشارة المفهومة من الأخرس لأن الكتابة المستبينة تقوم مقام اللفظ والإشارة المفهومة تقوم مقام العبارة".
"الدر المختار " (3/ 246):
"كتب الطلاق، وإن مستبينا على نحو لوح وقع إن نوى، وقيل مطلقا، ولو على نحو الماء فلا مطلقا. ولو كتب على وجه الرسالة والخطاب، كأن يكتب :يا فلانة!إذا أتاك كتابي هذا فأنت طالق،طلقت بوصول الكتاب جوهرة".
قال ابن عابدین رحمہ اللہ: "(قوله :كتب الطلاق إلخ) قال في الهندية: الكتابة على نوعين: مرسومة وغير مرسومة، ونعني بالمرسومة أن يكون مصدرا ومعنونا مثل ما يكتب إلى الغائب. وغير المرسومة أن لا يكون مصدرا ومعنونا، وهو على وجهين: مستبينة وغير مستبينة، فالمستبينة ما يكتب على الصحيفة والحائط والأرض على وجه، يمكن فهمه وقراءته.
وغير المستبينة ما يكتب على الهواء والماء وشيء لا يمكنه فهمه وقراءته. ففي غير المستبينة لا يقع الطلاق وإن نوى، وإن كانت مستبينة لكنها غير مرسومة ،إن نوى الطلاق وإلا لا، وإن كانت مرسومة يقع الطلاق نوى أو لم ينو، ثم المرسومة لا تخلو إما أن أرسل الطلاق بأن كتب: أما بعد! فأنت طالق، فكما كتب هذا يقع الطلاق وتلزمها العدة من وقت الكتابة".
محمد طارق
دارالافتاءجامعۃالرشید
01/صفر1445ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | محمد طارق غرفی | مفتیان | مفتی محمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب |