03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
میڈیکل اسٹور اور کلینک سے متعلق مختلف مسائل کا حکم
84494خرید و فروخت کے احکامخرید و فروخت کے جدید اور متفرق مسائل

سوال

سوال نمبر 1:

ہمارا ایک کلینک ہے اوراس کے ساتھ متصل ہی ہمارا ایک میڈیکل سٹور بھی ہے،میڈیکل سٹور کےلئے جو ہم دوائیاں خریدتے ہیں اس میں دو چیزیں ہوتی ہیں،پہلی چیز جسے ٹی پی کہا جاتا ہے ، یہ اصل دوائی کی ریٹیل قیمت سے 15 فیصد کم ہوتا ہے اور یہ ٹی پی ہر دوائی پہ ہوتا ہے اور بلا تفریق سب کو ملتا ہے۔مثلا اگر دوائی نے دو سو روپے میں فائنل کنزیومر کے پاس جانا ہے تو وہ میڈیکل سٹور والے کو 170 روپے میں ملے گی۔ یہ 170 روپے 200 والی دوائی کا ٹی پی ہے،شرعا اس کا کیا حکم ہے؟

سوال نمبر2:

اس ٹی پی کے علاوہ ایک اور چیز ہوتی ہے ڈسکاؤنٹ،یہ ڈسکاؤنٹ عموما ان لوگوں کو نہیں ملتا جن کا صرف میڈیکل سٹور ہے،بلکہ یہ ڈسکاؤنٹ ان میڈیکل سٹورز کو ملتا ہے جو کسی نہ کسی ڈاکٹر کا ہو اور اس ڈسکاؤنٹ کی کوئی شرح متعین نہیں ہے۔ کچھ کمپنیاں ٹی پی کے علاوہ دو سے تین فیصد ڈسکاؤنٹ دیتی ہیں، یعنی کم سے کم ڈسکاؤنٹ دو سے تین فیصد ہوتا ہے جو کہ 50 فیصد تک بھی جاتا ہے، یعنی کہ 200 روپے والی دوائی ہمیں ایک کی بجائے 200 روپے میں دو مل جاتی ہیں۔یہ واضح رہے کہ اس کا تعلق بھی مختلف ڈاکٹروں کے حساب سے بدلتا رہتا ہے۔ مثلا ایک ہی کمپنی کسی ڈاکٹر کی دوائی کی دکان کو 30 فیصد ڈسکاؤنٹ دے رہی ہے تو وہی کمپنی دوسرے ڈاکٹر کی دوائی والے سٹور کو 50 فیصد دے رہی ہے اور یہ ڈسکاؤنٹ عام طور پہ عام میڈیکل سٹور والوں کو نہیں ملتا یا اگر ملتا ہے تو بہت معمولی سا ملتا ہےتواب سوال یہ ہے کہ  اس ڈسکاؤنٹ کا کیا حکم ہوگا؟کیا یہ ڈسکاؤنٹ کہیں ان ہی ہدایا اور بیرون ممالک کے سیاحتی اسفار کی بدلی ہوئی شکل تو نہیں جن کے بارے میں مفتیان کرام عدم جواز کا فتوی صادر فرماتے ہیں۔

سوال نمبر3:

اب یہ بات ایک اور تفصیل کی متقاضی ہے وہ یہ کہ ایک ہی طرح کی دوائیاں مختلف کمپنیاں بنا رہی ہوتی ہیں، جس میں سے ایک تو سب سے اچھی ملٹی نیشنل برانڈ ہوتی ہے اور یقینا ایسی کمپنی ٹی پی کے علاوہ یا تو ڈسکاؤنٹ دیتی ہی نہیں یا بہت ہی معمولی سا ڈسکاؤنٹ دیتی ہے، لیکن وہ حفظان صحت اور دیگر تمام لوازم کو پورا کرتی ہے، جب کہ اس کے مقابلے میں وہی فارمولے والی دوائی جو دوسری لوکل کمپنی بنا رہی ہے یا کسی فیکٹری سے بنوا رہی ہے وہ یقینا ان تمام سرٹیفیکیشنز اور فارمیلٹیز کی حامل نہیں ہوتی جس پر ایک ملٹی نیشنل برینڈ پورا اتر رہی ہوتی ہے۔یہی وجہ ہوتی ہے کہ عام طور پر ان کی قیمت ملٹی نیشنل کمپنی کی دوائیوں کی قیمت سے کافی کم بھی ہوتی ہے تو اگر ہم یہ والی دوائیاں رکھیں جو ہمیں نسبتا سستی ملتی ہیں اور یقینا وہ آگے خریدنے والے کو بھی سستی مل رہی ہیں تو کیا اچھی اور ملٹی نیشنل دوائیوں کی بجائے ان دوائیوں کا اپنے سٹورز پہ رکھنا اور ان کو ڈاکٹر کی طرف سے تجویز کیا جانا جائز ہوگا یا نہیں؟ ان چیزوں کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ ڈاکٹر جب ان دوائیوں کو 15/ 20 مریضوں پر تجربہ کرنے کے بعد مطمئن ہوتا ہے تب ہی وہ انہیں اپنے سٹورز پر رکھواتا ہے یا مزید لکھتا ہے، ورنہ وہ اس کو بالکل مسترد کر دیتا ہے یعنی ڈاکٹر کی نظر میں یہ دوائی بھی اتنا ہی اثر کر رہی ہوتی ہے یا تقریبا اتنا ہی اثر کر رہی ہوتی ہے جتنا کہ ملٹی نیشنل کمپنی کی دوائی اثر کرتی ہے تو ہی ڈاکٹر وہ دوائی اپنی دکان پر رکھواتا ہے اور اس کو تجویز بھی کرتا ہے۔یہ آج کے احوال کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ بہت سے لوگ بلکہ اکثریت کی ترجیح یہی ہوتی ہے کہ وہ مہنگی دوائی خریدنے کی بجائے اسی فارمولے میں دوسری سستی دوائی خرید لیں جس کی تاثیر بھی تقریبا مہنگی والی دوائی کے برابر ہی ہوتی ہے،اس صورتحال میں شرعی حکم کیا ہوگا؟

سوال نمبر4:

ہم لوگ آپریشن تھیٹر کے لیے لینسز خریدتے ہیں، مختلف کمپنیوں سے مختلف لینسز تو اس میں ہمارا معاہدہ لینس کمپنی والوں سے یہ ہوتا ہے کہ وہ ہمارے پاس ایک مخصوص قیمت کی مقدار کا مال رکھ کے چلے جاتے ہیں اور انوائس بنا کے دیتے ہیں کہ مثلا پانچ لاکھ روپے کا مال ہم نے ان کے پاس رکھوا دیا ہے،پھر ڈیڑھ مہینے بعد وہ آتے ہیں (متعین مدت کے پورا ہونے پر) اور جتنا مال ہم نے استعمال کیا ہوتا ہے ،اس کی قیمت وصول کرتے ہیں اور بقیہ مال واپس لے جاتے ہیں،پھر اگلے مہینے نیا مال لے کے آتے ہیں اور نئی انوائس بناتے ہیں،اس کا حکم کیا ہوگا؟

سوال نمبر5:

 البتہ ایک کمپنی سے ہمارا معاہدہ اس طرح کا ہے کہ ان سے ہمارا یہ طے نہیں ہے کہ ہم ان کو رقم کی ادائیگی کب کریں گے،وہ ہمارے پاس آٹھ دس لاکھ کا مال رکھوا کر چلے جاتے ہیں اور کبھی دو مہینے میں کبھی تین مہینے میں کبھی چار مہینے میں آتے ہیں اور جتنا مال ہم نے استعمال کیا ہوتا ہے،اتنی قیمت وصول کر کے چلے جاتے ہیں، اگر ہمارے پاس مکمل قیمت نہ ہو تو جتنی ہوتی ہے اتنی لے جاتے ہیں ،باقی اگلی بار پر ادھار ہو جاتی ہے، اس مال رکھوانے میں یہ تفصیل ہے کہ اگر یہ مال ہلاک ہو جائے یا چوری ہو جائے تو اس کی ذمہ داری ہمارے اوپر آتی ہے، البتہ اگر ایکسپائر ہو جائے یا استعمال نہ ہو تو وہ ہم جب چاہیں واپس کر سکتے ہیں۔اس کا حکم کیا ہوگا؟

سوال نمبر 6:

ہمارے کلینک پر متعدد ڈاکٹرز بیٹھتے ہیں اور سب ہی آنکھ سے متعلق ہیں، اب ہم نے رش کو کنٹرول کرنے کے لیے یہ کردیا کہ ایک ایسے ڈاکٹر کو صبح کے وقت میں اجرت پر رکھ لیاجو9 بجے سے مریض دیکھنا شروع کردے،پھر جب11 بجے اصل ڈاکٹر آتے ہیں، جن کے نام پر کلینک ہے اور جن کے نام پر پرچیاں بنی ہیں تب وہ آکر مریضوں کو دیکھنا شروع ہو جاتے ہیں،کیا اس طرح کرنا درست ہوگا؟ یہاں یہ بات بھی واضح رہے کہ اگر کوئی مریض اس تنخواہ دار ڈاکٹر کو دکھانے کے بعد یہ کہتا ہے کہ مجھے تو ڈاکٹر فاروق ہی کو دکھانا تھا تو اس کو بٹھا دیتے ہیں کہ جب ڈاکٹر صاحب آئیں گے تو آپ کو دیکھ لیں گے،اگرچہ وہ ڈاکٹر جو تنخواہ پر رکھا گیا ہے اس کی ڈگری ڈاکٹر فاروق سے زیادہ بڑی ہے، اور کبھی کبھی ڈاکٹر فاروق کو بھی کسی مریض کے معاملے میں ان دوسرے ڈاکٹر سے مشورہ کرنا پڑتا ہے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

1) سوال میں مذکور ڈسکاؤنٹ بظاہر کمپنی کی طرف سے دوائی کی اصل قیمت میں شامل نہیں ہے،البتہ میڈیکل اسٹورز کی اصطلاح میں اسے ڈسکاؤنٹ یا ٹی پی سے ذکر کیا جاتا ہے،اور اس ٹی پی کی وجہ سے کسٹمر کے ساتھ کوئی دھوکہ وغیرہ بھی نہیں ،لہٰذا مسؤولہ صورت میں میڈیکل اسٹور والوں کے لیےپندرہ فیصد کے بقدر ٹی پی سے فائدہ اٹھانا جائز ہے۔

2) واضح رہے کہ ڈاکٹر کا مریض کی مصلحت اور اس کی خیر خواہی کو مد نظر رکھنا شرعی اور اخلاقی  ذمہ داری ہے، اس بنا پر ڈاکٹر اور مریض کے معاملہ کی وہ صورت  جو مریض کی مصلحت اور فائدہ کے خلاف ہو یا جس میں ڈاکٹر اپنے پیشہ یا مریض کے ساتھ کسی قسم کی خیانت کا مرتکب ہوتا ہو، شرعاً درست نہیں ہے ، لہٰذا اگر ڈاکٹر اپنے مالی فائدے یا کسی اور قسم کی ذاتی منفعت  ہی کو ملحوظ رکھتا ہے اور مریض کی مصلحت اور فائدے سے صرف نظر کرتے ہوئےاس کے لیے علاج/دوا تجویز کرتا ہے تو یہ دیانت کے خلاف ہے اور اس میں ڈاکٹر گناہ گار ہوگا، اور اس کے لیے اس کے عوض کمپنی سے اپنے میڈیکل اسٹور کے لیےمذکورہ ڈسکاؤنٹ وغیرہ لینا بھی جائز نہیں ہوگا۔ البتہ  اگر ڈاکٹر مریض کی مصلحت اور خیر خواہی کو مدنظر رکھتے ہوئے  پوری دیانت داری کے ساتھ مریض کے لیے وہی دوا تجویز کرے جو اس کے لیے مفید اور موزوں ہو اور اس میں درج ذیل شرائط کی رعایت بھی کی جائے تو ایسی صورت میں ڈاکٹر کے لیے اپنے میڈیکل اسٹور کے لیےمذکورہ خصوصی ڈسکاؤنٹ لینے  کی گنجائش ہے:

  1. محض ڈسکاؤنٹ وصول کرنے کی خاطر  ڈاکٹر غیر معیاری  وغیر ضروری  اور مہنگی ادویات تجویز نہ کرے۔
  2. کسی دوسری کمپنی کی دوا مریض کے لیے  زیادہ مفید سمجھتے ہوئے  خاص اس کمپنی  ہی کی دوا تجویز نہ کرے ،جس نے مذکورہ خصوصی ڈسکاؤنٹ دیا ہے۔
  3. دوا ساز کمپنیاں ڈاکٹر کو دیے جانے والے مذکورہ خصوصی ڈسکاؤنٹ وغیرہ کا خرچہ  ادویات  مہنگی  کر کے مریض  سے وصول  نہ کریں ۔
  4. مذکورہ خصوصی ڈسکاؤنٹ  وغیرہ کی ادائیگی  کا خرچہ  وصول کرنے کے لیے  کمپنی ادویات  کے معیار  میں کمی نہ کرے ۔
  5. مذکورہ خصوصی ڈسکاؤنٹ  وغیرہ دینے والی کمپنی کی دوا مریض کے لیے مفیدہو اور دوسری اس  طرح کی دواؤں سے مہنگی نہ ہو۔

اگر مذکورہ بالا شرائط کی رعایت نہ کی جائے تو ڈاکٹر کے لیےاپنے میڈیکل اسٹور کے لیےمذکورہ خصوصی ڈسکاؤنٹ  وغیرہ لینا جائز نہیں۔

3) جیسا کہ یہ بات واضح ہے کہ مریض کے لیے ایسی دوا جو معیاری ہواور قیمت میں کم ہوبہتر ہے ،بنسبت اس دواکے جو غیر معیاری ہو یا معیاری ہولیکن قیمت میں زیادہ ہو،لہٰذا اس اصول کو مد نظر رکھتے ہوئے اور سوال نمبر دوکے جواب میں بتائی گئی تفصیل کو مدنظررکھتےہوئے میڈیکل اسٹور پرایسی دوا رکھنااوربیچنا جائز ہے۔

4) جیسا کہ سائل نے واٹساپ پر کنفرم کیا کہ مذکورہ صورت میں مال میڈیکل اسٹور کے ضمان (Risk) میں ہوتا ہے،لہٰذا اگر اس مال کو کوئی نقصان ہو تو اس کے ذمہ دارمیڈیکل اسٹور والے ہوتے ہیں،مذکورہ وضاحت کے مطابق جب کمپنی آپ کو مال دے کر انوائس دیتی ہے تو اس میں مال کی مقدار اور قیمت وغیرہ سب معلوم ہوتی ہے،لہٰذا کمپنی کی طرف سے آپ کو مال دے کر انوائس دینے سے بیع منعقد ہوجاتی ہے اور مال پر قبضہ کروانے سے کمپنی کا رسک بھی میڈیکل اسٹور مالکان کی طرف ٹرانسفر ہوجاتاہے،اور قیمت کی ادائیگی کا وقت ایک ماہ بعد متعین ہوتاہے،اب اگر ایک ماہ کے اندر پہلے سے خریدا ہوا مال نہ بکا تو کمپنی کی طرف سے یہ سہولت حاصل ہے کہ جتنا مال باقی بچا ہو اتنے مال پر میڈیکل اسٹوراقالہ کرلے یعنی وہ مال واپس کردےتو اس میں شرعاًکوئی حرج نہیں۔

5) قیمت کی ادائیگی کا وقت عقد میں متعین نہ ہونے کی وجہ سے مذکورہ صورت کے مطابق معاملہ کرنا جائز نہیں،البتہ اس کا جائز متبادل یہ ہے کہ معاملہ نقد کیا جائے اور اس کے بعد کمپنی کی طرف سے قیمت کی وصولی میں یہ سہولت ہو کہ میڈیکل اسٹور والے اپنی سہولت کے مطابق اور کمپنی کے ساتھ اپنے مراسم کے مطابق قیمت کی ادائیگی بعد میں کرتے رہیں۔بقیہ تفصیل وہی ہے جو سوال نمبر چار کے جواب میں ذکر کی ہے۔

6) سوال میں ذکر کردہ تفصیل سے یہ معلوم ہورہا ہے کہ مذکورہ کلینک کسی مخصوص ڈاکٹر کے نام پر ہے،اس کا مطلب یہ ہے کہ آنے والے مریض عام طور پراسی مخصوص ڈاکٹر سے علاج کرانے کے لیے آتے ہیں،لہٰذا مذکورہ کلینک میں آنے والے مریض لاعلمی کی وجہ سےاگر مخصوص ڈاکٹر سے علاج کروانے کے بجائے کسی اور سےعلاج کرواکر چلے جاتے ہیں تو ایسے مریضوں سے علاج کروانے کا عوض لینا تو درست ہے ،لیکن کسی درجے میں یہ دھوکہ دہی کے زمرے میں بہرحال آتا ہے،لہٰذا اس سے اجتناب لازم ہے۔بہتر صورت یہ ہے کہ باقاعدہ ہر ڈاکٹر کی ٹائمنگ اور دیگر ضروری تفصیلات وغیرہ لکھ کر مختلف جگہوں پر آویزاں کردی جائیں تاکہ ہر مریض اپنی خواہش کے مطابق جس ڈاکٹر سے علاج کروانا چاہے وہ کروالے۔

حوالہ جات

تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق وحاشية الشلبي (4/ 83)

قال - رحمه الله - (والزيادة فيه والحط منه والزيادة في المبيع ويتعلق الاستحقاق بكله) أي يجوز للمشتري أن يزيد في الثمن ويجوز للبائع أن يحط من الثمن وأن يزيد في المبيع ويلتحق بأصل العقد ويتعلق الاستحقاق بجميع ذلك حتى لا يكون للمشتري أن يطالب بالمبيع حتى يدفع الزيادة وللبائع أن يحبسه حتى يستوفي الزيادة ويملك المشتري المطالبة بتسليم المبيع كله بتسليم ما بقي من الحط.

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (5/ 154)

(و) صح (الحط منه) ولو بعد هلاك المبيع وقبض الثمن (والزيادة) والحط (يلتحقان بأصل العقد) بالاستناد.

تحفة الفقهاء (3/ 374)

ولا ينبغي للقاضي أن يقبل الهدية إلا من ذي رحم محرم منه أو من صديق قديم الصحبة قد كان بينهما التهادي قبل زمان القضاء فأما من غير هذين فلا يقبل الهدية ويكون ذلك في معنى الرشوة.وأما الدعوة فإن كان دعوة عامة مثل دعوة العرس والختان فلا بأس بذلك. فأما الدعوة الخاصة فإن كانت من ذي الرحم المحرم أو الصديق القديم الذي كان يضيفه قبل القضاء فلا بأس بالإجابة.وفي غيرهما لا ينبغي أن يحضر لأن ذلك يوجب تهمة فيه قال العلامۃ السرخسی رحمہ اللہ:قوله لا يرتشي المراد الرشوة في الحكم،وهو حرام

المبسوط للسرخسي (16/ 67)

قال - صلى الله عليه وسلم - «الراشي والمرتشي في النار» ولما قيل لابن مسعود - رضي الله عنه - الرشوة في الحكم سحت قال ذلك الكفر إنما السحت أن ترشو من تحتاج إليه أمام حاجتك.

تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق وحاشية الشلبي (5/ 228)

وقال - عليه الصلاة والسلام - «لا ضرر، ولا ضرار في الإسلام».

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (4/ 502)

وشرعا: (مبادلة شيء مرغوب فيه بمثله) خرج غير المرغوب كتراب وميتة ودم على وجه) مفيد. (مخصوص) أي بإيجاب أو تعاط.

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (4/ 504)

 وفي البدائع: ركنه المبادلة المذكورة، وهو معنى ما في الفتح من أن ركنه الإيجاب والقبول الدالان على التبادل أو ما يقوم مقامهما من التعاطي، فركنه الفعل الدال على الرضا بتبادل الملكين من قول أو فعل.

تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق وحاشية الشلبي (4/ 70)

وهي (الإقالۃ)مشروعة مندوب إليها لقوله - صلى الله عليه وسلم - «من أقال نادما بيعته أقال الله عثرته يوم القيامة».

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (5/ 119)

الإقالة هي لغة: الرفع من أقال أجوف يائي، وشرعا (رفع البيع).

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (5/ 119)

(قوله: رفع العقد) ولو في بعض المبيع لما في الحاوي.

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (4/ 505)

والخاصة معلومة الأجل في البيع المؤجل ثمنه.

تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق وحاشية الشلبي (4/ 5)

ولا بد أن يكون الأجل معلوما؛ لأن الجهالة فيه تفضي إلى المنازعة.

محمد حمزہ سلیمان

دارالافتا ء،جامعۃالرشید ،کراچی

         ۰۶.صفر۱۴۴۶ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد حمزہ سلیمان بن محمد سلیمان

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب / سعید احمد حسن صاحب