03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
مشترکہ کاروبار میں نفع نقصان کی تقسیم
84552شرکت کے مسائلشرکت سے متعلق متفرق مسائل

سوال

میں نے ایک دوست سے پراپرٹی کاروبار کے لیے پانچ لاکھ روپے لیے ہیں۔ پانچ لاکھ روپے پر میں ہر مہینے اپنے دوست کو 1 فیصد منافع دیتا ہوں۔ اگر پراپرٹی کاروبار میں نقصان ہو گیا تو0.5 فیصد ہر مہینے نقصان برداشت کرے گا۔ ایگریمنٹ 5 مہینے کا کیا ہے۔ یہ کاروبار سود میں تو نہیں آتا؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

کاروبار کا مذکورہ طریقہ درست نہیں ۔ایک شریک کےلیے متعین نفع  کی شرط لگانا یا سرمائے  کے فیصد کے حساب سے نفع تقسیم کرنا   جائز نہیں ۔ منافع کے فیصد کے حساب سے نفع طے کر نا شرعا لازم ہےاور نقصان میں ہر شخص اپنے سرمائے کے بقدر شریک ہوگا۔

آپ کے کاروبار کے جواز کی صورت یہ ہے کہ آپ اپنے سرمائے کا اور دوست سے لی گئی رقم کا  حساب لگائیں کہ ان کا فیصدی تناسب کیا بن رہا ہے،پھر خدانخواستہ نقصان ہو  تو وہ نقصان اسی تناسب سے ہر فریق پر تقسیم ہوگا، البتہ نفع کی تقسیم کا ضابطہ یہ ہےکہ  نفع کی شرح باہمی رضامندی سے کچھ بھی طےکر سکتے ہیں، لیکن اگر  کاروبار کو صرف ایک شخص سنبھال رہا ہے،توجو پارٹنر صرف سرمایہ لگا رہا ہے اور اس کے ذمے کوئی کام نہیں ،تو  اس کےلیے اس کے سرمایہ  کی شرح سے زائد کی شرط لگانا جائز نہیں ،جبکہ شریک عامل (جس کے ذمے کام کرنے کی شرط لگائی گئی ہو)اس کے نفع کی شرح اس  کے سرمائے کی شرح سے زیادہ بھی ہو سکتی ہے۔

حوالہ جات

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع(6/ 62):

‌إذا ‌شرطا ‌الربح على قدر المالين متساويا أو متفاضلا، فلا شك أنه يجوز ويكون الربح بينهما على الشرط سواء شرطا العمل عليهما أو على أحدهما والوضيعة على قدر المالين متساويا ومتفاضلا؛ لأن الوضيعة اسم لجزء هالك من المال فيتقدر بقدر المال

الموسوعة الفقهية الكويتية (26/ 45):

وهذا الشرط موضع وفاق. وقد حكى ابن المنذر إجماع أهل العلم على أن لا شركة مع اشتراط مقدار معين من الربح - كمائة - لأحد الشريكين سواء اقتصر على اشتراط هذا المقدار المعين لأحدهما، أم جعل زيادة على النسبة المشروطة له من الربح، أم انتقص من هذه النسبة؛ لأن ذلك في الأحوال كلها قد يفضي إلى اختصاص أحدهما بالربح، وهو خلاف موضوع الشركة، أو - كما عبر الحنفية - قاطع لها

ومن هذا القبيل، ما لو شرط لأحدهما ربح عين معينة أو مبهمة من أعيان الشركة - كهذا الثوب أو أحد هذين الثوبين - أو ربح سفرة كذلك - كهذه السفرة إلى باريس، أو هي أو التي تليها إلى لندن - أو ربح هذا الشهر أو هذه السنة۔

محمد سعد ذاكر

دارالافتاء جامعہ الرشید،کراچی

12/صفر /1446ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد سعد ذاکر بن ذاکر حسین

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب