021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
گھریلواور ساس بہوکے جھگڑوں کا حل
84599معاشرت کے آداب و حقوق کا بیانمتفرّق مسائل

سوال

میری شادی کونو  مہینے ہو چکے ہیں اور شروع سے ہی اس شادی میں مسائل چل رہے ہیں،میری ساس، سسراور نندیں ہر چیز پر مسائل بناتے ہیں،مثلا میں کیسے کھانا کھاتی ہوں؟ کیسے ہنستی ہوں؟ اور کیسے کام کرتی ہوں؟ میری ساس ہر وقت یہی کہتی رہتی ہیں کہ مجھے کچھ کام کرنا نہیں آتا، میں کھانا بنانے میں ماہر نہیں ہوں، لیکن جب کر لوں گی تو آہستہ آہستہ سیکھ جاؤں گی، مگرانہیں یہ بات سمجھ نہیں آتی۔ وہ میری اماں، بھابی، اور چچی سے یہی کہتی ہیں کہ میں کچھ نہیں کرتی، مجھے کچھ بنانا نہیں آتا، ابھی عید الاضحیٰ پر بھی میرے سسرالیوں نے بہت تماشا لگایا، میرے سسر نے صرف اس بات پر کہ میری ساس کہتی تھی : میں کچھ نہیں کرتی، بس پورا دن اپنے کمرے میں رہتی ہوں، مجھے گھر سے نکال دیا تھا ، جب کہ ایسا کچھ نہیں تھا، لیکن بات ہوئی اور میں نے معافی مانگی تو ایک مہینے بعد واپس اپنے سسرال گئی تھی، لیکن میری ساس کا رویہ اب بھی نہیں بدلااور  وہ اب بھی ویسی ہی ہیں۔

جب سے شادی ہوئی ، وہ مجھے کہتے رہتے ہیں کہ میرے آنے سے گھر میں کوئی رونق نہیں رہی اور ماحول خراب ہو گیا ہے،میرے سسر مجھ پر دو بار غصہ ہو چکے ہیں ، تو ایک بار میں نے بھی ان کی باتوں کا جواب دے دیا تھا، میرے سسرال والے ہر وقت میرے اندر برائیاں ہی ڈھونڈتے رہتے ہیں، انہوں نے عید الاضحی پر بہت کوشش کی کہ میرے شوہر مجھے چھوڑ دیں اور دوسری شادی کر لیں، میرے سسر، ساس، اور نند نے مجھے اور میری ماں کو بہت غلط غلط باتیں کہیں، میرا دل ان لوگوں کی طرف سے بہت خراب ہوگیا،میں نے اپنے شوہر سے الگ گھر کی بات کی تھی، لیکن وہ الگ گھر دینے کو تیار نہیں ہیں۔ ابھی میں اپنے سسرالیوں کے ساتھ ہی رہ رہی ہوں  اور میری ساس نے مجھ پر چوری کا الزام بھی لگایا۔براہ کرم، مجھے رہنمائی فراہم کریں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

گھروں میں ساس بہو کے جھگڑے اور مسائل  ہونا  ایک عام بات ہے،خصوصا نئی نویلی دلہن کو شروع میں ایسے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے،مگرایک دوسرے کے مزاج کو سمجھ کربصیرت وعقلمندی اور خوش اخلاقی سے کام لیا جائے تو   جلد ہی یہ  مسائل ختم ہو سکتے ہیں، مثلاچھوٹی سی  بات  کو لے کر مسئلہ بنانے،پرانی  باتیں دہرانےاور طعنہ دینے کے بجائے حوصلے،صبراور  برداشت  سے کام لیا جائے،دوسروں کو معاف کرنے اور اپنے اوپر ترجیح دینے کا جذبہ اپنایا جائے،اس سے گھر میں اطمینان اورسکون کا  ماحول پیدا ہوگا،ورنہ جھگڑے اور نفرتیں بڑھنے سے  خلع یا طلاق لینے تک نوبت پہنچ جائے گی،جس کےبرے اثرات صرف میاں بیوی تک محدود نہیں رہتے،بلکہ دونوں خاندان اور معاشرے کے لیے بھی یہ خطرناک ثابت ہو سکتےہیں۔

ان گھریلو اور معاشرتی مسائل میں نبی کریم ﷺ کی یہ دو احادیث مبارکہ بطورِ خاص    پیش نظر رہیں :

1-مسلمان تو وہ ہے جس کی زبان اور  ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔2-ایک مسلمان جب دوسرے لوگوں سے میل جول رکھتاہواور ان کی طرف سے پہنچنے والی اذیت و تکلیف پر صبرکرتا ہو، تو وہ اس مسلمان سے بہتر ہے جو نہ لوگوں سے تعلق  رکھتاہواورنہ  ان کی طرف سے پہنچنے والی تکلیف پر صبر کرتا ہو۔

نیزشوہر کی بھی یہ  ذمہ داری ہے کہ گھرمیں عورتوں کو آپس میں الجھنے اور جھگڑنے کا موقع دینے کےبجائےان میں اتحادواتفاق اور مثبت سوچ کو پروان چڑھائے،اس لیے شوہر کو یہ تاکید کی جاتی ہے کہ گھر میں عورتوں  کی تعلیم و تربیت کا  خیال رکھتےہوئے ان سے احکامِ  شریعت کی پابندی کروائے ،جس کی ایک آسان صورت یہ ہے کہ بزرگانِ دین کی کتابوں اورمواعظ کی اجتماعی تعلیم کا اہتمام کیا جائے،اس بارے میں سب سے اہم اورمشہورکتاب حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ  کی بہشتی زیور ہے، جوکہ  خصوصی طور پر عورتوں کی تعلیم وتربیت کے لیے لکھی گئی ، اور اس میں عملی زندگی میں پیش آنے والے شرعی مسائل کا احاطہ کرنے کے ساتھ ساتھ آداب واخلاق بھی بہترین اور حکیمانہ اسلوب میں  بیان کیے  گئے  ہیں، اب یہ کتاب  ہمارے جامعۃ الرشید کے اساتذۂ کرام کی کاوش سے آسان اردو میںتسہیلِ بہشتی زیور کے نام سے چھپ چکی ہے۔

اس کے علاوہ خاص گھریلوجھگڑوں کے حل اور رشتہ داریاں نبھانےکے موضوع  پر امورِ خانہ داری میں حسنِ انتظام، مثالی عورت اور گھریلوجھگڑوں سے نجاتاز مولاناپیر ذوالفقاراحمدنقشبندی صاحب دامت برکاتہم، نیز اصلاح البیوت از مولانا شفیق احمدخان  بستوی صاحب مدظلہ   اور ہم رشتے کیسے نبھائیں؟ از مفتی منیر احمد صاحبمدظلہ  وغیرہ اہم کتابیں ہیں۔اگر کوشش کے باوجود بھی اتفاق پیدا نہ ہو تو شوہر کے ذمہ لازم ہےکہ مستقل گھر دینے کی استطاعت نہ ہو تو کم از کم بیوی کو ایک کمرہ اور باورچی خانہ مہیا کرے ،جس میں کسی اور کا عمل دخل نہ ہو،جبکہ  والدین کی خدمت بھی خود شوہر کی ذمہ داری ہے،بیوی کو اس کی ترغیب دی جاسکتی ہےاور یہ اس کے لیے سعادت  بھی ہے،مگر اسے مجبور نہیں کیا جاسکتا۔

حوالہ جات
أحكام القرآن للجصاص ط العلمية (3/ 624):
مطلب: يجب علينا تعليم أولادنا وأهليناوقوله تعالى: {يا أيها الذين آمنوا قوا أنفسكم وأهليكم نارا} روي عن علي في قوله: {قوا أنفسكم وأهليكم} قال: "علموا أنفسكم وأهليكم الخير" وقال الحسن: "تعلمهم وتأمرهم وتنهاهم". قال أبو بكر: وهذا يدل على أن علينا تعليم أولادنا وأهلينا الدين والخير وما لا يستغنى عنه من الآداب، وهو مثل قوله تعالى: {وأمر أهلك بالصلاة واصطبر عليها} [طه: 132] ونحو قوله تعالى للنبي صلى الله عليه وسلم: {وأنذر عشيرتك الأقربين} [الشعراء:214] ويدل على أن للأقرب فالأقرب منا مزية به في لزومنا تعليمهم وأمرهم بطاعة الله تعالى، ويشهد له قول النبي صلى الله عليه وسلم: "كلكم راع وكلكم مسئول عن رعيته" ومعلوم أن الراعي كما عليه حفظ من استرعي وحمايته والتماس مصالحه فكذلك عليه تأديبه وتعليمه.
 صحيح البخاري (1/ 11):
عن عبد الله بن عمرو رضي الله عنهما، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: المسلم من سلم المسلمون من لسانه ويده.
سنن الترمذي ت بشار (4/ 243):
عن شيخ، من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم أراه، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: المسلم إذا كان يخالط الناس ويصبر على أذاهم خير من المسلم الذي لا يخالط الناس ولا يصبر على أذاهم.قال ابن أبي عدي: كان شعبة، يرى أنه ابن عمر.
الفتاوى الهندية (1/ 556):
تجب السكنى لها عليه في بيت خال عن أهله وأهلها إلا أن تختار ذلك كذا في العيني شرح الكنز. .. امرأة أبت أن تسكن مع ضرتها، أو مع أحمائها كأمه وغيرها، فإن كان في الدار بيوت فرغ لها بيتا، وجعل لبيتها غلقا على حدة ليس لها أن تطلب من الزوج بيتا آخر، فإن لم يكن فيها إلا بيت واحد فلها ذلك.

محمدعبدالمجیدبن مریدحسین

   دارالافتاء جامعۃ الرشید ،کراچی

   13/صفر/1446ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمدعبدالمجید بن مرید حسین

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / مفتی محمد صاحب / سعید احمد حسن صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے