021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
عقدِ مضاربت اور اس میں نفع کا حکم
84644مضاربت کا بیانمتفرّق مسائل

سوال

 کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں  کہ ایک شخص جس کا نام حافظ نور محمد ہے، وہ آج سے تقریباً چھ سال پہلے قاری محمد نعیم صاحب کے پاس آکر  بتلاتا ہے کہ میں بیکولائٹ (بجلی کے بٹنوں) کا کام کرتا ہوں، آپ مجھے کچھ پیسے دیں میں آپ کو اس پر نفع دوں گا ،قاری صاحب نے علماء کرام سے پوچھا تو انہوں نے بتلایا کہ نفع فی صد کے اعتبار سے طے ہونا ضروری ہے، چنانچہ اس نے قاری صاحب سے اس طرح طے کیا کہ اخراجات نکال کر کل منافع میں سے نوے فیصد آپ کا اور دس فیصد میرا ہوگا ،معاملہ  طے ہوگیا اور  چند ماہ وہ مسلسل منافع دیتا رہا۔

 قاری صاحب کے چند متعلقین کو معلوم ہوا تو انہوں نے بھی کاروبار میں اپنی رقم  انویسٹ کر دی، ان کو بھی فیصد کے اعتبار سے منافع طے کرکے  دیتا رہا ،جب انویسٹ بڑھی تو اس شخص نے کاروبار بھی بڑھا دیا اور بیکولائٹ کے ساتھ ڈائیوں ( بٹن بنانے کے سانچہ) کا کام بھی شروع کردیا ،اس میں انویسٹ بھی زیادہ ہے اور فی صد کے اعتبار سے منافع بھی زیادہ ہے، پھر تقریباً ڈیڑھ سال پہلے اس نے مشینوں کا کام شروع کیا ،اس میں بھی انویسٹ  زیادہ ہے،جبکہ  منافع میں سے 75 فی صد انویسٹر کو دیتا ہے اور25 فی صد خود رکھتا ہے، اب پوچھنا یہ ہے کہ کیا یہ کاروبار شرعی اعتبار سے درست ہے  ؟ بعض ساتھی کہہ رہے ہیں کہ یہ سودی کاروبار ہے ،جو اس کو سودی کاروبار کہتے ہیں ان کی شرعی حیثیت متعین فرما کر عند اللہ ماجور ہوں ۔

 تنقیح:سائل نے استفسار پریہ  وضاحت  بھی کی کہ سارا سرمایہ دوسرے لوگوں کا ہے،اور ہر ایک کواس سے طے شدہ تناسب سے نفع  دیا جاتا  ہے،جبکہ   نقصان کے بارے میں یہ طے کیا گیا کہ اگر نقصان قدرتی طور پر ہواتو مال والے کا  شمار ہوگا،اور اگر کام کرنے والے نے جان بوجھ کرکیا تو پھر وہی نقصان کا ذمہ دار ہوگا،باقی جو اس کاروبار کو سود کہتے ہیں وہ علماء نہیں بلکہ عوام ہیں، اور ان کی دلیل یہ ہے کہ اتنا منافع کون دیتا ہے،جبکہ اصل رقم محفوظ ہو اور منافع ملتا رہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

صورتِ مسئولہ میں چونکہ سارا سرمایہ دوسرے لوگوں کی طرف سے ہے،اور انہی کی رضامندی سےموصوف حافظ نور محمدتینوں قسم کے  کاروبار کے  لیے اپنی محنت فراہم کرتےہیں، ان کے درمیان کاروبار کے اس معاہدے میں کل منافع سے اخراجات کو منہا کر کے باقی نفع کی تقسیم   فیصد کے اعتبار سے طے ہے ، جبکہ نقصان کی ذمہ داری عائد ہونے  کا اصول بھی درست طےکیا گیا ہے، لہٰذا  یہ تینوں قسم  کا    کاروبار جائز ہےاور عوام کا اسے سودی    کاروبار  کہنا    غلط ہے،ایسے کاروبار کوفقہی لحاظ  سے عقدِمضاربت کہتے ہیں۔

اس میں رب المال(سرمایہ دار) کی  اصل رقم اور سرمایہ اس معنیٰ میں محفوظ  رہتا ہے کہ اس میں صرف  کاروبار سے حاصل ہونے والا نفع، سرمایہ داراورمضارب(محنت کرنے والے فریق) کے درمیان طے شدہ فیصدی حصہ کے اعتبار سے تقسیم کیا جاتا ہے،جبکہ  قدرتی طور پر اگر نقصان ہو جائے تو پہلے اس کی تلافی کاروبار سے حاصل ہونے والے ان منافع سے کی جاتی ہے،جو اس وقت  تک حتمی طور پر تقسیم نہ کیے گئے  ہوں، اس سےبھی اگر تلافی  نہ ہوتوپھر باقی نقصان  رب المال کے سرمایہ کا شمار ہوگا،جبکہ مضارب کی محنت رائیگاں چلی جائے گی،لہٰذا ایسے کاروبار کے منافع میں سود کا شک و شبہ نہ کیا جائے،کیونکہ سود قرض پر مشروط اضافہ ہوتا ہے،چاہے وہ متعین ہو یا غیر متعین ہو۔

حوالہ جات
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار:5/ 645-649):
(هي) لغة مفاعلة من الضرب في الأرض وهو السير فيها وشرعا (عقد شركة في الربح بمال من جانب) رب المال (وعمل من جانب) المضارب...(و) الفاسدة (لا ضمان فيها) أيضا (كصحيحة) ؛ لأنه أمين...(وكون الربح بينهما شائعا) فلو عين قدرا فسدت (وكون نصيب كل منهما معلوما) عند العقد.ومن شروطها: كون نصيب المضارب من الربح حتى لو شرط له من رأس المال أو منه ومن الربح فسدت... والأصل أن التصرفات في المضاربة ثلاثة أقسام: قسم: هو من باب المضاربة، وتوابعها فيملكه من غير أن يقول له: اعمل ما بدا لك ... وقسم: لا يملك بمطلق العقد بل إذا قيل اعمل برأيك كدفع المال إلى غيره مضاربة أو شركة أو خلط مالها بماله أو بمال غيره، وقسم: لا يملك بمطلق العقد، ولا بقوله: اعمل برأيك إلا أن ينص عليه، وهو ما ليس بمضاربة ولا يحتمل أن يلحق بها كالاستدانة عليها ا. هـ.

محمدعبدالمجیدبن مریدحسین

    دارالافتاء جامعۃ الرشید ،کراچی

        13/صفر/1446ھ  

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمدعبدالمجید بن مرید حسین

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / مفتی محمد صاحب / سعید احمد حسن صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے