03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
والد کے سرمایہ سے شروع کئے گئے کاروبار میں بیٹے کی حیثیت
84575جائز و ناجائزامور کا بیانخریدو فروخت اور کمائی کے متفرق مسائل

سوال

والد کی موجودگی میں تین بیٹے مشترک کاروبار میں والد صاحب کے ساتھ کام کرتے ہیں اور تینوں بیٹے والد صاحب کے ساتھ ایک ہی گھر میں رہتے ہیں،والد صاحب کی جائیداد سے جو کمائی آتی ہے سب اسی کمائی سے خرچہ کرتے ہیں،اب ایک بیٹا والد صاحب سے جائیداد تقسیم کرنے کا مطالبہ کرتا ہےکہ مجھے اپناحق دیاجائے،پوچھنا یہ ہے کہ:

بیٹےنےشروع سےاب تک والد کی جائیداد میں کام کرکے جو اضافہ کیا ہے وہ بیٹے کا حق ہے،یا والد کا ؟

تنقیح:کاروبار والد کے سرمایہ سے شروع کیا گیا تھا،یہ بیٹا بھی دیگر بیٹوں کے ساتھ ان کی معاونت کرتا رہا۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

واضح رہے کہ جب کاروبار میں اصل سرمایہ والد کا ہو اور بیٹے ان کے ساتھ معاونت کے طور پر کام کریں تو ایسی صورت میں اس کاروبار سے حاصل ہونے والے تمام منافع اور اثاثہ جات والد کی ملکیت شمار ہوتے ہیں،بیٹے کی والد کے ساتھ معاونت تبرع سمجھی جاتی ہے،البتہ اگر معاونت کا دورانیہ ایک سال یا اس سے زائد عرصے پر مشتمل ہو تو پھر بیٹے کو اس کی محنت کا معاوضہ اجرت مثل کی صورت میں ملے گا،کیونکہ عرفاً عام طور پر اتنا طویل عرصہ کوئی تبرعاً کام نہیں کرتا۔

چونکہ مذکورہ صورت میں بھی کاروبار والد صاحب کے ذاتی سرمایہ سے شروع کیا گیا  ہے اور بیٹے نے والد کے ساتھ معاونت کرکے ان کی جائیداد میں اضافہ کیا ہے،اس لئے وہ اضافہ والد کا حق ہے،تاہم اگر معاونت کا دورانیہ ایک سال یا اس سے زیادہ ہو تو بیٹے کو زیادہ سے زیادہ اجرت مثل کے مطالبے کا حق حاصل ہوگا جسے درج ذیل باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے طے کیا جائے گا:

1. یہ اندازہ لگایا جائے کہ اگر کوئی ملازم اس قسم کا کام کرتا تو اس کی ماہانہ یا سالانہ تنخواہ کتنی ہوتی۔

2. یہ اندازہ کم از کم دو ایسے غیر جانبدار لوگوں سے لگوایا جائے،جنہیں اس کاروبار کی نوعیت کا علم ہو،مارکیٹ سے وابستہ لوگ ہوں تو زیادہ بہتر رہے گا۔

3. یہ بھی مدنظر رہے کہ مشترکہ اخراجات کی صورت میں یہ بھائی اس کاروبار سے اپنے ذاتی اور گھریلو اخراجات بھی وصول کرتے رہے ہیں،اس لیے انہیں بھی اس مجموعی تنخواہ سے منہا کیا جائے گا۔

حوالہ جات

"شرح المجلة لخالد الاتاسی" (4/ 320):

"قال فی الفتاوی الخیریة :قول علمائنا :اب وابن یکتسبان فی صنعة واحدة ولم یکن لھما شیء، ثم اجتمع لھمامال، قال: یکون کلہ للأب إذا کان الابن فی عیالہ،ھو مشروط کما یعلم من عبارتھم بشروط: منھا اتحاد الصنعة وعدم مال سابق لھماوکون الابن فی عیال أبیہ فإذا عدم واحد منھا لایکون کسب الابن للأب.......

أقول: استفید من کون مدار الحکم ثبوت کون الابن معینا لأبیہ أنہ لیس المراد باتحاد الصنعة اتحادھا نوعا ،بل المراد أن یعملا بھا یدا واحدة ویکون الکسب الحاصل غیر متمیز حتی لوکان کل منھما حداد ا مثلا إلا أن کلا منھما یعمل فی دکان لہ علی حدة وأمر الابن فی عملہ لیس عائدا لأبیہ،لایکون معینا لہ وإن کان فی عیالہ، بل یکون کسبہ لہ خاصة".

"القواعد الفقهية وتطبيقاتها في المذاهب الأربعة" (1/ 298):

"العادة مُحَكَّمة (م/36)

 التوضيح: إن القاعدة تعني أن العادة، عامة كانت أم خاصة ،تُجعل حكمالإثبات حكم شرعي لم يُنص على خلافه بخصوصه، فلو لم يرد نص يخالفها أصلاً، أو ورد ولكن عاماً، فإن العادة تعتبر.

وأصل هذه القاعدة قول ابن مسعود، رضي اللہ عنه: "ما رآه المسلمون حسناً فهو عندﷲ حسن، وما رآه المسلمون قبيحاً فهو عند ﷲ قبيح ".

وهو حديث موقوف حسن، وإنه وإن كان موقوفاً عليه فله حكم المرفوع؛لأنه لا مدخل للرأي فيه  ورواه الإمام أحمد في (كتاب السنة) وأخرجه البزار والطيالسي والطبراني وأبو نعيم في (الحلية) والبيهقي في (الاعتقاد) عن ابن مسعودرضی اللہ عنہ أيضاً.

وعقد الإمام البخاري رحمہ اللہ في كتاب البيوع باب من أجرى أمر الأمصار على مايتعارفون بينهم في البيوع والإجارة والمكيال والوزن، وسننهم على نياتهم ومذاهبهم المشهورة، وقال شريح للغزالين: سنتكم بينكم ربحاً...

وقال النبي - صلى اللہ عليه وسلم - لهند: (خذي ما يكفيك وولدك بالمعروف )".

وقال تعالى: (وَمَنْ كَانَ فَقِيرًا فَلْيَأْكُلْ) ، واكترى الحسن من عبد ﷲبن مرداس حماراً، فقال: بكَم؟ قال: بدانقين، فركبه، ثم جاء مرة أخرى، فقال: الحمارَ الحمارَ، فركبه ولم يشارطه، فبعث إليه بنصف درهم أي كالأجرة السابقة التي تعارفا عليها) .

وساق البخاري رحمه ﷲ تعالى ثلاثة أحاديث في ذلك، وعقب عليها ابن حجر رحمه اللہ تعالى فقال: (مقصوده بهذه الترجمة إثباته الاعتماد على العرف، وأنه يُقضى به على ظواهر الألفاظ".

وقال النووي رحمه اللہ تعالى في فوائد حديث هند رضي اللہ عنها: "ومنها اعتماد العرف في الأمور التي ليس فيها تحديد شرعي ".

وحدد ابن النجار الفتوحي رحمه اللہ تعالى الضابط للرجوع إلى العرف والعادة، فقال: وضابطه: كل فعل رُتب عليه الحكم، ولا ضابط له في الشرع، ولا في اللغة، كإحياء الموات، والحرز في السرقة، والأكل من بيت الصديق، وما يُعدُّ قبضاً، وإيداعاً، وإعطاء، وهدية، وغصباً، والمعروف في المعاشرة، وانتفاع المستأجر بما جرت به العادة، وأمثال هذه كثيرة لا تنحصر".

"الأشباه والنظائر " (ص: 230):

"استعان برجل في السوق ليبيع متاعه فطلب منه أجرا فالعبرة لعادتهم وكذا لو أدخل رجلا في حانوته ليعمل له".

محمد طارق

دارالافتاءجامعۃالرشید

13/صفر 1446ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد طارق غرفی

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / مفتی محمد صاحب / سعید احمد حسن صاحب