84655 | طلاق کے احکام | طلاق کے متفرق مسائل |
سوال
میرے شوہر نے مجھے کئی سال پہلے 2 طلاقیں دی تھیں ۔پھر رجوع کر لیا ،اورمجھے منع کیا کہ اپنے گھر میں نہیں بتانا ۔ 17, 18 سال بعد ان ہی حالات سے تنگ آ کر میں نے ان سے کہا ،جب آ پ کی مجھ میں کوئی دلچسپی نہیں اور نہ ہی میرا خیال ہے، تو صرف ایک طلاق ہی رہ گئی ہے ،وہ بھی دے کر مجھے فارغ کریں ،تاکہ میں ا پنے والد کی ہی خدمت کر لوں۔اس نے میری بات ان سنی کر دی، تومیں نے دوبارہ یہ الفاظ دہراے تووہ بولے " جا پھر تو فارغ ہے جا چکی جا " ۔ پھر ہم نے علماء سے پوچھا ،تو بتایا گیا کہ طلاق ہو گئی ،مگر یہ نہیں مانے اور کہا کہ میری نیت طلاق کی نہیں تھی ۔وہ تھوڑی غلط بیانی کر رہے تھے، تو میں نے کاغذ پر لکھا کہ" میں نے اپنی بیوی ثمینہ کو پہلے 2 طلاق دی ،پھر اس کے ساتھ جھگڑےمیں اس کےمطالبے پر کہا کہ جا پھر تو فارغ ہےاور اس طرح 3 طلاق پوری ہو گئی "، میں نے ان سے کہا آپ غلط بیانی کرتے ہیں ،اس لیے اس کو پڑھ کے سائن کر دیں ، انہوں نے پڑھ کر سائن کیے اور کہا سائن تو کر دیے ہیں لیکن پھر بھی مانوں گا نہیں۔پھر ان کے گھر والوں نے دوبارہ نکاح کروا دیا اور میرے گھرمیں بھی نہیں بتایا ۔میں مطمئن نہیں تھی، اس لیے ان سے تعلق نہیں رکھا ، میں نے اپنے والد کو بتایا اور ان کے گھر آ گئی۔ پھر انہوں نے ایک مشہور دارالافتاءسے فتوی لیا ،انہوں نے ان سے حلف اٹھوایا اور فیصلہ کردیا ۔میں اس وقت بچوں کی وجہ سے جذباتی ہو کران کی بات مان کران کے ساتھ آ گئی ، مگر حالات خراب سے خراب ہوتے گئے۔ پیسوں کی اپنے والد سے مدد لیتی ہوں ،رہنے کیلئے گھر بھی والد نے دیا ہوا ہے۔ میں بہت ذہنی اذیت میں ہوں ، وہ عدالتی خلع بھی نہیں مان رہے، آپ بتائیں طلاق ہو گئی ہے یا نہیں ؟
تنقيح:
1. مشہور دارالافتاء سےجامعۃ العلوم الاسلامیہ بنوری ٹاون مراد ہے ۔وہ فتوی شوہر کے پاس ہے جو میسر نہیں ہو سکا ۔بیوی کے مطابق شوہر کو آگاہ کیا تو وہ ہنگامہ کھڑا کر دے گا ،اس لیے شوہر سے بات بھی نہیں ہو سکی۔
2. بیوی کا کہنا ہے کہ جب بنوری ٹاؤن سے فتوی لیا گیا ،اس صورت میں بیوی نے جو وضاحت کی تھی ،وہ وہاں پیش نہیں کی گئی۔
3. فتوی کی جو زبانی تفصیل معلوم ہوئی اس کے مطابق سابقہ دو طلاقیں جس میں دونوں کا اختلاف تھا ، ان میں مرد کے حق میں ایک جبکہ بیوی کے حق میں دو طلاقوں کے وقوع کا حکم دیا گیا ہے۔ لفظ فارغ سے جو طلاق دی گئی تھی اس سے متعلق قسم اٹھوائی گئی اور اس پر فیصلہ کیا گیا ۔صورت مسئلہ جو بنوری ٹاؤن کے سامنے پیش کی گئی وہ معلوم نہیں ہوسکی۔
۴۔ایک پرانے صفحے کی تصویر ارسال کی گئی ہے،جس میں اوپر لکھا ہوا جملہ لکھا گیا ہے، اور سائن کی جگہ اردو میں منظور لکھا گیا ہے، جو بیوی کے بیان کے مطابق ان کے شوہر کا نام ہے اور وہ ایسے ہی سائن کرتے ہیں۔یہ پرچہ بنوری ٹاوں میں نہیں دکھایا گیا تھا۔بیوی کا کہنا ہے کہ شوہر اپنے سائن اور پرچے کو مانتے ہیں ،لیکن لفظ فارغ سے طلاق کو نہیں مانتے۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
جیسا کہ آپ کا بیان ہے، اگر حقیقت ایسی ہی ہے ، اور آپ کو یقین ہےکہ آپ کے شوہر نے آپ کو پہلے دو طلاقیں دی ہیں ، پھرآپس کی تکرار اور مطالبہ طلاق کی صورت میں ایک طلاق لفظ فارغ کے ساتھ دی ہے ، آپ کے پاس شوہر کا دستخط شدہ پرچہ بھی ہے اور شوہر اس پرچےکو اور اپنے سائن کو مانتے ہیں توقضاء و دیانۃ تین طلاقیں واقع ہو چکی ہیں ۔شوہر کے تسلیم کرنے نہ کرنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
اگر وہ اس پرچے کو نہیں مانتے،لیکن پہلے دی گئی ایک طلاق کو مانتے ہیں ، اور لفظ فارغ سے منسوب واقعے کو بھی مانتے ہیں تو اس صورت میں شوہر کی بنسبت دوطلاقیں واقع ہوچکی ہیں،جس میں لفظ فارغ سےجو طلاق واقع ہوئی وہ طلاق بائن ہے، اور اس کے نتیجے میں آپ کا نکاح ختم ہوجائے گا اور شوہر کے لیے بھی بغیر نکاح اور مہر کے رجوع جائز نہیں ۔ لیکن آپ کے حق میں دیانۃ تین طلاقیں ہی واقع ہو ں گی۔
اگر وہ لفظ فارغ سے منسوب واقعے کو ہی نہیں مانتے ، جبکہ آپ کو مکمل یقین یہ کہ حقیقت ایسی ہی ہے ،تو اس صورت میں شوہر کے حق میں ایک اور آپ کے حق میں تین طلاقیں واقع ہوچکی ہیں ۔
ان تمام صورتوں میں آپ کے حق میں دیانۃ تین طلاقیں واقع ہوہی چکی ہیں ،لہذاشوہر سے کسی قسم کا تعلق رکھنا آپ کے لیےجائز نہیں ۔اگر آپ اس معاملے میں سچی ہیں تو علیحدگی کے لیے آپ جو کوشش کریں گی اس پر آپ کو اجر و ثواب ملے گا،اور اس علیحدگی کے لیے شوہر کی رضامندی ضروری نہیں ، آپ اپنے قانونی تحفظ کے لیے عدالتی خلع کا سہارہ بھی لے سکتی ہیں،اگرچہ شوہر اس کو نہ مانے،کیونکہ اس صورت میں نکاح کا خاتمہ طلاقوں کی وجہ سے شمار ہوگا ،نہ کہ عدالتی خلع کی وجہ سے۔ لیکن اگر اس معاملے میں آپ کی طرف سے کوئی غلط بیانی ہوئی تو یاد رکھیے کہ اس کا گناہ انتہائی سنگین ہوگا ۔جھوٹ کا گناہ ، بہتان کا گناہ، شوہر کی نافرمانی کا گناہ ہوگا اورآپ فرشتوں کی لعنت کی مستحق ہوں گی۔
حوالہ جات
الفتاوى الهندية»(1/ 349):
(وأما البدعي) فنوعان بدعي لمعنى يعود إلى العدد وبدعي لمعنى يعود إلى الوقت (فالذي) يعود إلى العدد أن يطلقها ثلاثا في طهر واحد أو بكلمات متفرقة أو يجمع بين التطليقتين في طهر واحد بكلمة واحدة أو بكلمتين متفرقتين فإذا فعل ذلك وقع الطلاق وكان عاصيا
حاشية ابن عابدين » (3/ 251):
والمرأة كالقاضي إذا سمعته أو أخبرها عدل لا يحل له تمكينه. والفتوى على أنه ليس لها قتله، ولا تقتل نفسها بل تفدي نفسها بمال أو تهرب، كما أنه ليس له قتلها إذا حرمت عليه وكلما هرب ردته بالسحر. وفي البزازية عن الأوزجندي أنها ترفع الأمر للقاضي، فإنه حلف ولا بينة لها فالإثم عليه. اهـ. قلت: أي إذا لم تقدر على الفداء أو الهرب ولا على منعه عنها فلا ينافي ما قبله
محمد سعد ذاكر
دارالافتاء جامعہ الرشید،کراچی
15/صفر /1446ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | محمد سعد ذاکر بن ذاکر حسین | مفتیان | محمد حسین خلیل خیل صاحب / سعید احمد حسن صاحب |