84683 | خرید و فروخت کے احکام | خرید و فروخت کے جدید اور متفرق مسائل |
سوال
کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک شخص نے مجھے کہا کہ آپ مجھےوہ تمام گیمز جو آج سے پہلےکھیلی گئی ہیں ،ان کا مکمل ڈیٹا نکال کر بیچ دو۔میں نے تمام گیمز کا ڈیٹا ایکسل کے ذریعے بنا کر اس کو بھیج دیا۔ اس کے بدلے اس نے مجھے پیسے دیے۔ اس ڈیٹا کی انفارمیشن دیتے ہوئے میں نے ان کھیلوں کا بھی ذکر کیا جن میں جوا بازی ہوئی تھی ۔اس بندے کا ڈیٹا خریدنا صرف انفارمیشن حاصل کرنے کی حد تک تھا کھیلنا مقصود نہیں تھا ،تو کیا میرے لئے یہ کمائی ہوئی رقم حلال ہوگی ؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
اگر اس شخص نے ان گیمز کا ڈیٹا صرف انفارمیشن کیلئے خریدا تھا اور کھیلنا مقصود نہیں تھا ۔اور آپ کو بھی یہ یقین تھا کہ وہ ان انفارمیشن کے ذریعے گیمز نہیں کھیلے گا تو اس صورت میں آپ کو جو رقم ملی ہے اس کا استعمال کرنا جائز ہے ۔ لیکن اگر آپ کو یقین ہو ،کہ وہ ان انفارمیشن سے غلط فائدہ اٹھائے گا اور ان کے ذریعے وہ گیمز کھیلے گا جس میں جوا بازی ہوتی ہےتو اس صورت میں اس کے ہاتھ ڈیٹا بیچنا جائز نہیں۔
حوالہ جات
(فقہ البیوع 1/182،183،184،185،186):
الأول :أن يقصد الإعانة على المعصية، فإن من باع العصير بقصد أن يتخذ منه الخمر، أو أمرد بقصد أن يفسق به، كان عاصياً في نفس هذا البيع بهذه النية والقصدة وكذا من آجر بيتا بقصد أن يباع فيه الخمر,فقامت المعصية بعين هذه الإجارة مع قطع النظر عن فعل فاعل مختار، لاقتران هذه النية، كما مر مصرحافي الأشباہ، وحظر رد المحتار.
والثاني: بتصريح المعصية في طلب العقد، كمن قال: بعني هذا لأتخذه خمراً، فقال: بعته، أو أجر لي بيتك لأبيع فيه الخمر، قال: أجرته ، فإنه بهذا التصريح تضمن العقد نفسه معصية، مع قطع نظر عما يحدث بعد ذلك من اتخاذه خمراً، وبيع الخمر فيه؛ وذلك لما في إجارات المبسوط للسرخسي رحمه الله.
الثالث، بيع أشياء ليس لها مصرف إلا في المعصية، فيتمحض بيعها وإجارتها للمعصية، وإن لم يصرح بها. ففي جميع هذه الصور قامت المعصية بعين هذا العقد، والعاقدان كلاهما أثم بنفس العقد، سواء استعمل بعد ذلك في المعصية أم لا، وسواء استعملها على هذه الحالة، أو بعد استحداث صنعة فيه، فإن ستعملها في المعصية، كان ذلك إثماً آخر على الفاعل خاصة.
وان لم يكن محركاً وداعياً، بل موصلاً محضاً، وهو مع ذلك سبب قريب بحيث لا يحتاج في إقامة المعصية به إلى إحداث صنعة من الفاعل، كبيع السلاح من أهل الفتنة، وبيع الأمرد ممن يعصي به، وإجارة البيت ممن يبيع فيه الخمر، أو يتخذه كنيسة أو بيت نار وأمثالها، فكله مكروة تحريماً بشرط أن يعلم به البائع والمؤجر، من دون تصريح به باللسان، فإنه إن لم يعلم كان معذوراً، وإن علم وصرح كان داخلاً في الإعانة المحرمة، وإن كان سبباً بعيداً بحيث لا يفضي إلى المعصية على حالتها الموجودة، بل يحتاج إلى إحداث صنعة فيه، كبيع الحديد من أهل الفتنة وأمثالها، فتكره تنزيها .
عطاء الر حمٰن
دارالافتاءجامعۃالرشید ،کراچی
19/صفر المظفر/1446ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | عطاء الرحمن بن یوسف خان | مفتیان | سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب |