84701 | میراث کے مسائل | میراث کے متفرق مسائل |
سوال
ایک شخص نے زندگی میں اپنی بیٹیوں کو کہا کہ میں تمہیں زندگی میں جائیداد میں حصہ دینا چاہتا ہوں،لیکن پھر دیا نہیں،کیونکہ بیٹیوں نے کہا کہ ہمیں ضرورت نہیں ہے۔
اب کیا اس شخص کی موت کے بعد اس کا بیٹا اپنی بہنوں کو صرف اس وجہ سے میراث سے محروم کرسکتا ہے کہ والد نے جب حصہ دینا چاہا تو تم نے کہا تھا کہ ہمیں ضرورت نہیں؟جبکہ بیٹیاں اب اپنا حصہ لینا چاہتی ہیں،بشرطیکہ بھائی انہیں حصہ دیں۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
زندگی میں اپنی جائیداد میں سے اولاد کو کچھ دینا ہبہ کے حکم میں ہے،جبکہ وراثت کا حق کسی شخص کے انتقال کے بعد اس کے مال میں ورثا کے لئے ثابت ہوتا ہے،اس لئے مذکورہ صورت میں زندگی میں والد کے حصہ دینے کے ارادے پر انکار کی وجہ سے بیٹیوں کا میراث میں حق ختم نہیں ہوا،لہذا بھائی پر لازم ہے کہ بہنوں کو ان کا حصہ دے اور دنیا کے عارضی نفع کی خاطر اپنی آخرت برباد نہ کرے،کیونکہ میرإث میں جس طرح مردوں کا حق اورحصہ متعین ہے بالکل اسی طرح اللہ تعالی نے عورتوں کا حصہ بھی متعین فرمایا ہے،چنانچہ فرمان باری تعالی ہے:
{لِلرِّجَالِ نَصِيبٌ مِمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ وَلِلنِّسَاءِ نَصِيبٌ مِمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ مِمَّا قَلَّ مِنْهُ أَوْ كَثُرَ نَصِيبًا مَفْرُوضًا } [النساء: 7]
ترجمہ:مردوں کے لئے بھی اس مال میں حصہ ہے جو والدین اور قریب ترین رشتہ داروں نے چھوڑا ہو اور عورتوں کے لئے بھی اس مال میں حصہ ہے جو والدین اور قریب ترین رشتہ داروں نے چھوڑا ہو،چاہے وہ(ترکہ)تھوڑا ہو یا زیادہ،یہ حصہ(اللہ کی طرف سے)مقرر ہے۔(آسان ترجمہ قرآن)
اور ناحق دوسروں کا مال کھانے پر احادیث میں سخت وعیدوارد ہے،چنانچہ صحیح مسلم کی ایک روایت کا مفہوم ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
جو شخص(کسی کی) بالشت بھر زمین بھی ناحق لے گا،قیامت کے دن ساتوں زمینوں میں سے اتنی ہی زمین اس کے گلے میں طوق کے طور پر ڈالی جائے گی۔
حوالہ جات
"صحيح مسلم "(3/ 1231):
"عن سعيد بن زيد، قال: سمعت النبي صلىﷲ عليه وسلم يقول: «من أخذ شبرا من الأرض ظلما، فإنه يطوقه يوم القيامة من سبع أرضين»".
"رد المحتار"(6/ 758):
"والمراد بالفرائض السهام المقدرة كما مر فيدخل فيه العصبات، وذو الرحم؛ لأن سهامهم مقدرة وإن كانت بتقدير غير صريح.
وموضوعه: التركات، وغايته: إيصال الحقوق لأربابها، وأركانه: ثلاثة وارث ومورث وموروث. وشروطه: ثلاثة: موت مورث حقيقة، أو حكما كمفقود، أو تقديرا كجنين فيه غرة ووجود وارثه عند موته حيا حقيقة أو تقديرا كالحمل والعلم بجهة إرثه".
محمد طارق
دارالافتاءجامعۃالرشید
22/صفر 1446ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | محمد طارق غرفی | مفتیان | سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب |