03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
ٹریول ایجنسی سے متعلق مختلف مسائل کاحکم
84737خرید و فروخت کے احکامخرید و فروخت کے جدید اور متفرق مسائل

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام  ٹریول ایجنسی  کے کام سے متعلق درج ذیل چند سوالات کے بارے میں ؟

سوال نمبر 1:ٹریول ایجنٹ اگر خود ٹکٹ خریدنے سے پہلے کسٹمر کو یہ بتائے کہ یہ ٹکٹ آپ کو ایک لاکھ روپے کی ملے گی،اب اگر کسٹمر پاسپورٹ اور قیمت جمع کروا دیتا ہے تب جا کر ٹریول ایجنٹ وہ ٹکٹ بُک کرتا ہے،کچھ صورتوں میں قیمت اور پاسپورٹ وصول کرنے سے پہلےکچی بکنگ بھی کر لی جاتی ہے ،مگر عام طور پر ایسا نہیں کیا جاتا، کیوں کہ کچی بکنگ کرنے کے بعد اگر پھر کینسل کیا جائے تو کبھی کبھی پینلٹی بھی لگ جاتی ہے، اسی ڈر سے کچی بکنگ سے بھی پہلے پیسے اور پاسپورٹ وصول کیا جاتا ہے، پھر ٹکٹ خریدی جاتی ہے۔تو کیا یہ غیر مملوکہ  ٹکٹ کی بیع تو نہیں ہوگی؟

سوال نمبر 2:دوسرا سوال یہ ہے کہ اس میں ٹریول ایجنٹ کو جتنے کی ٹکٹ پڑ رہی ہوتی ہے، وہ اس میں اپنا منافع شامل کر کے بتاتا ہے، اور کتنا منافع رکھا گیا ہے یہ بات کسٹمر کو نہیں بتائی جاتی۔

سوال نمبر 3:تیسرا سوال یہ ہے کہ جب کسٹمر ہمیں ڈن کردیں کہ آپ فلاں دن کی فلاں ائیرلائن والی ٹکٹ ہمارے لیے خرید لیں، اور پیسے اور پاسپورٹ بھی جمع کروادیں، تو ہم اس کی کچی بکنگ کر لیتے ہیں، کچی بکنگ کو کنفرم کرنے کے لیے ہمارے پاس ایک دن ہوتا ہے، اب اگر اس ایک دن میں جو ٹکٹ پہلے ایک لاکھ کی آرہی تھی، اور ہم نے کسٹمر کو یہ بتائے بغیر کہ کتنے کی آرہی ہے، یا بتا کر کہ اتنے کی آرہی ہے، (دونوں صورتوں میں) 1 لاکھ 5 ہزار کی بیچی تھی، وہ ٹکٹ ایک دن مکمل ہونے سے پہلے پہلے سستی ہوگئی، اور نوے ہزار کی ہوگئی تو کیا یہ پندرہ ہزار جو کم ہوگئے ہیں، یہ ہم رکھ سکتے ہیں، یا انھیں بتانا لازم ہوگا کہ یہ سستی ہوگئی، یا انھیں لوٹانا لازم ہوگا؟

سوال نمبر 4:یہی چیز ویزہ میں بھی ہوتی ہے، ٹریول ایجنٹ ویزہ لگوا کر کسٹمر کو دیتا ہے، مگر اس بات کی صراحت کے ساتھ کہ اگر کسی بھی وجہ سے اس ملک کی حکومت نے ویزہ مسترد کردیا، یا لگ کر نہیں آیا اور تاخیر ہوگئی تو ہم ذمہ دار نہیں ہوں گے۔ اب ویزہ اگر پچاس ہزار کا لگ رہا ہوتا ہے تو سروس چارجز رکھ کر مثلا ہم نے 52 ہزار کا لگوانے کا وعدہ کرلیا، پہلا سوال یہ ہے کہ کیا یہاں پر کسٹمر کو بتانا لازم ہوگا کہ ویزہ کی اصل قیمت کیا ہے، یا نہیں؟

سوال نمبر 5:اگر پچاس ہزار میں لگنے والا ویزہ ایک دم سے سستا ہوکر تیس ہزار کا ہو جائے اور ہم کسٹمر سے پیسے لے چکے ہوں تو کیا وہ پیسے جو کم ہوئے ہیں ہم رکھ سکتے ہیں یا وہ بھی کسٹمر کو دینے ہوں گے؟اور یہ چیز بھی کہ اگر وہ ویزہ مہنگا ہو جائے اس وقت میں تو اس کا کیا حکم ہوگا؟ کیا ہم کسٹمر سے وہ پیسے مانگ سکتے ہیں یا وہ ہمیں اپنی جیب سے ادا کرنا ہوگا؟

سوال نمبر 6:اوپر بتائی گئی صورت دراصل اس طرح ہوتی ہے کہ ہم نے مکمل پیکج بیچا ہوتا ہے، جس میں ویزہ، ٹکٹ، ہوٹل، ٹرانسپورٹ وغیرہ سب ملا کر ہم نے انھیں قیمت بتائی ہوتی ہے،(کیا ایسے مختلف سہولیات کو ایک عقد میں بیچنا جائز ہے؟)کبھی ہم یہ مارجن رکھتے ہوئے بھی بیچتے ہیں کہ اگر پیسے بڑھے یا کم ہوئے ،(اگر اس چیز کا بہت زیادہ امکان ہوتا ہو)تو ہم آپ کو بتائیں گے اور آپ سے مزید بھی وصول کیے جاسکتے ہیں،یہ اس صورت میں ہوتا ہے جب کبھی کچھ چیزوں کے ریٹس بہت زیادہ واضح نہ ہوں، حالات کی وجہ سے یا نیا نیا سیزن شروع ہونے کی وجہ سے وغیرہ۔

سوال نمبر 7:سوال یہ ہے کہ ہم لوگ کبھی کبھی ریال خریدتے اور بیچتے ہیں، ہمارا ایک دوست سعودی عرب میں مقیم ہے،ہمیں جب ریال چاہیے ہوتا ہے تو ہم اس سے رابطہ کرتے ہیں اور مثال کے طور پر ہمیں پانچ لاکھ روپے کے ریال چاہئیں تو ہم اپنے دوست کے بینک اکاؤنٹ میں پانچ لاکھ روپے ارسال کر دیتے ہیں اور پھر اس دوست کے پاس ریال رکھے ہوئے ہوں تو وہ ہمارے لیے اپنے ریال الگ کر کے رکھ دیتا ہے اور پھر ہمارا جب کوئی کسٹمر وہاں پہنچتا ہے تو وہ اس کے حوالے کر دیتا ہے اور اگر اس کے پاس نہ ہوں تو وہ کسی اور سے خریدتا ہے اور تین یا چار پانچ دن کے بعد اس کو ان ریالات کی وصولی ہوجاتی ہے،کیا یہ صورت جائز ہوگی؟

سوال نمبر 8:سوال یہ ہے کہ ہم لوگ کبھی کبھی ریال اس طور پر خریدتے ہیں کہ ہمارا ایک دوست سعودی عرب میں مقیم ہے،ہمیں جب ریال چاہیے ہوتا ہے تو ہم اس سے رابطہ کرتے ہیں اور مثال کے طور پر ہمیں پانچ لاکھ روپے کے ریال چاہئیں تو ہم اپنے دوست کے بینک اکاؤنٹ میں پانچ لاکھ روپے ارسال کر دیتے ہیں اور پھر اس دوست کے پاس ریال رکھے ہوئے ہوں تو وہ ہمارے لیے اپنے ریال الگ کر کے رکھ دیتا ہے اور پھر جس کا ہم بتاتے ہیں وہ اس کے حوالے کر دیتا ہے اور اگر اس کے پاس نہ ہو تو وہ کسی اور سے خریدتا ہے اور تین یا چار پانچ دن کے بعد اس کو ان ریالات کی وصولی ہوجاتی ہے،پھر ہم جس کا بتاتے ہیں وہ اس کے حوالے کردیتا ہے،اس صورت میں یہ ریال ہم کسی اور کو بیچتے نہیں ہیں بلکہ سعودیہ کی مختلف کمپنیوں سے جو ہم نے سہولیات وغیرہ لی ہوتی ہیں ان کو پیمنٹ کرواتے ہیں اپنے مذکورہ دوست کے ذریعے سے،کیا یہ صورت جائز ہوگی؟

سوال نمبر 9:سوال یہ ہے کہ کئی مرتبہ کسٹمر ہم سے ٹکٹ بک کروا کر پھر کینسل کروا دیتا ہے،چونکہ اس میں ہماری محنت تو لگتی ہی ہے کہ ہم کبھی کبھی کئی کئی گھنٹے تک سستی ٹکٹ کی تلاش میں بیٹھے رہتے ہیں اور کبھی بہت زیادہ نہیں بھی لگتی تو بہرحال وقت پھر بھی صرف تو ہوتا ہی ہے،لہٰذا جب کسٹمر کینسل کرواتا ہے تو ایئر لائن کینسلیشن کی کچھ فیس  کاٹتی ہے،مثلا 50 ہزار روپے کی ٹکٹ پر اس نے تین ہزار روپے کاٹے تو اب ہم 47000 روپے اسے واپس نہیں کرتے بلکہ کبھی کبھی اس میں سے ڈیڑھ/ دو ہزار اپنے سروس چارجز بھی کاٹ لیتے ہیں تاکہ جو ہماری محنت ہوئی ہے وہ تو وصول ہو جائےتو کیا یہ جائز ہوگا؟

سوال نمبر 10:آخری سوال اس ایجنسی کی شرکت کی بنیاد سے متعلق ہے۔ وہ یہ کہ ابتداء میں اس ٹریول ایجنسی کو شروع کرنے کے لیے والد صاحب نے دس لاکھ روپے کا سرمایہ دیا، اس میں سے کچھ رقم آفس بننے پر لگی اور کچھ ڈیپازٹ کے طور پر رکھوائے گئے، کچھ عرصے تک بندوں کی تنخواہیں ابو اپنے پاس سے ادا کرتے رہے، جبکہ یہ ایجنسی چلا ہم دو بھائی رہے تھے۔ ہم نے کیا یوں تھا کہ پچاس فیصد کے ابو مالک تھے سرمائے کی وجہ سے، اور باقی پچاس میں ہم دو بھائی پارٹنر (ورکنگ پارٹنر) تھے 25.. 25 فیصد کے، اپنی خدمات کے عوض۔ 8 سال تک تو ہم والد صاحب سے تنخواہ لیا کرتے تھے، البتہ ایک سال سے اسی طرح چلا کہ پرافٹ میں ہم اسی شرح سے شریک تھےاور ساتھ ہی پچاس ہزار روپے تنخواہ بھی لیا کرتے تھے،جبکہ اگر کبھی کوئی نقصان ہوتا تو وہ پرافٹ سے ادا کیا جاتا اور پرافٹ نہ ہو تو والد صاحب اپنے پاس سے ادا کرتے۔کیا یہ شرکت درست ہے؟اور اگر نہیں تو پچھلے سالوں میں اس غلطی کے ازالے کا کیا طریقہ کار ہوگا؟نیز درست طریقہ کار کیا ہوگا؟اس وضاحت کے ساتھ کہ اس ٹریول ایجنسی میں اب مزید کوئی سرمایہ کاری بظاہر ممکن نہیں، کیوں کہ ہم جو ٹکٹ خریدتے ہیں، وہ کسٹمر سے پیسے لے کر خریدتے ہیں، اور انہی پیسوں کی رولنگ سے مکمل کاروبار بھی چلتا ہے اور سب ملازمین کی تنخواہیں بھی نکلتی ہیں۔ البتہ وہ آفس جس میں ہم بیٹھتے ہیں وہ بھی والد صاحب ہی کی ملکیت ہے۔ اب کیا اس طرح کریں کہ اس آفس میں کچھ پیسے شامل کر کے اپنی شرکت قائم کریں، یا اس سرمائے کے ایک حصے میں جو ڈپازٹ دکھایا ہوا ہے اپنے پیسے شامل کریں یا کوئی اور صورت ہوگی؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

جہاز کا ٹکٹ ،اس بات کی نمائندگی کر رہا ہوتا ہے کہ ٹکٹ ہولڈر کو ایک مخصوص وقت میں، مخصوص جگہ سے مخصوص جگہ تک،مخصوص کیٹیگری کی سیٹ پر مع جملہ لوازمات کے سفر کرنے کی اجازت ہے،گویا کہ" ٹکٹ "سفر کی سہولت حاصل ہونے  کی نمائندگی کر رہا ہوتا ہے،اور سفر کی سہولت ایک منفعت ہےاور منفعت کو بالعوض حاصل کرنا عقد اجارہ کہلاتا ہے۔

البتہ یہ صورت کہعقد اجارہ کے تحت کسی چیزکو حاصل کرکے آگے عقد اجارہ کے تحت دینا "اصطلاح میں تاجیر من الباطن کہلاتی ہے۔

یہ ضروری ہے کہ عقد اجارہ کے تحت حاصل کی جانے والی چیز خود استعمال کرے،آگے کرایے پر نہ دے،البتہ اگراجارہ کے معاملے کے وقت یہ اجازت دی گئی ہوکہ مستاجر اسے آگے اجارے پر دے سکتا ہے یا وہ چیز ایسی ہو کہ استعمال کرنے والے کے مختلف ہونے سے اس کے استعمال پر فرق نہ پڑتاہوتو ایسی صورت میں یہ چیز آگے اجارہ یعنی(Sub lease)پر دی جاسکتی ہے،البتہ فقہائے حنفیہ رحمہم اللہ کے ہاں اس ضمنی اجارے (تاجیرمن الباطن)میں صرف اتنی اجرت وصول کرسکتا ہے جو وہ خود اس کی ادا کر رہا ہو،اس سے زیادہ اجرت وصول نہیں کرسکتا،الا یہ کہ اس چیز میں ایسا کوئی عمل کرے جواس کی ذات میں قیمتاً اضافے کا سبب ہو یااجرت کی جنس تبدیل کرے مثلاً پہلا اجارہ پاکستانی روپے میں ہو اور دوسرا ریال میں تو پھر اضافی اجرت وصول کرنا بھی جائز ہوتاہے،البتہ دیگر فقہائے کرام رحمہم اللہ دوسرے اجارے میں طے کی جانے والی  اجرت کو مطلقاً جائز قرار دیتے ہیں یعنی دوسرے معاملے کی اجرت پہلے سے کم یا برابر بھی ہوسکتی ہے اور اس سے زیادہ بھی طے کی جاسکتی ہے۔

مذکورہ بالا تفصیل کے مطابق ٹریول ایجنسی کے کاروبار کے عرف اور ضرورت کی وجہ سے اضافی قیمت پر کسٹمر کو ٹکٹ دینے کی دیگر فقہائے کرام  رحمہم اللہ کی رائے کے مطابق گنجائش معلوم ہوتی ہے۔

مذکورہ گنجائش اس صورت میں ہے جب کہ ٹریول ایجنٹ کو یہ اختیار ہوکہ وہ اپنے لیے ٹکٹ حاصل کرکے پھر کسی اور کو بالعوض دے سکتا ہو،البتہ اگر صورت یہ ہوکہ ٹریول ایجنٹ جس کے لیے ٹکٹ بک کروائے صرف  اسی کو دے سکتا ہو یعنی پہلے اپنے لیے ٹکٹ بک کروا کر پھر کسی اور کو بالعوض دینے کے بجائے ،براہ راست  متعین کسٹمر ہی کے لیے بک کرواسکتا ہو تو ایسی صورت میں یہ معاملہ تاجیر من الباطن کی بجائے ،کمیشن ایجنٹ کے طور پر درست ہوگا،یعنی ٹریول ایجنسی کسٹمر کی کمیشن ایجنٹ بن کراس کو خدمات فراہم کرر ہی ہوگی،لہٰذا مذکورہ صورت میں معاملے کی ابتدا سے ٹریول ایجنسی کے لیے کسٹمر کی طرف سے کمیشن کا متعین اورطے ہونا ضروری ہے،کسٹمر کی رضامندی کے بغیر طے شدہ کمیشن سے زائد وصول کرناٹریول ایجنسی کے لیے جائز نہیں ہوگا،اسی طرح ٹکٹ کی قیمت میں ہونے والی ہر کمی بیشی کا تعلق کسٹمر سے ہوگا اور ٹریول ایجنسی صرف طے شدہ کمیشن کی مستحق ہوگی۔

سائل کی وضاحت اورہماری معلومات کے مطابق ٹریول ایجنسی اور ایئر لائن کمپنی کے درمیان معاملے کی دو صورتیں ہوتی ہیں:

پہلی صورت:ایسی ٹریول ایجنسی جوخود IATA سرٹیفیکٹ ہولڈر ہونے کی بنیاد پر یا کسی دوسری IATA سرٹیفیکٹ ہولڈرٹریول ایجنسی کے لائسنس کی بنیاد پرایئرلائن کمپنی سے معاملہ کرتی ہے یا IATAسرٹیفیکٹ کے بغیر ایئرلائن کمپنی سےمعاملہ کرتی ہے،ان تینوں صورتوں میں ٹریول ایجنسی ایئر لائن کمپنی سے ٹکٹ بالعوض حاصل کرکے اپنے کسٹمر کو بالعوض نہیں دیتی  بلکہ فقط اصل کسٹمر اورایئرلائن کمپنی کے درمیان واسطے کا کردار ادا کرتی ہے۔اس صورت کا حکم یہ ہے کہ ٹریول ایجنسی اپنی خدمات کے عوض (سروس چارجز کے طور پر)طےشدہ کمیشن وصول کرسکتی ہے ،کسٹمر کی رضامندی کے بغیر طے شدہ کمیشن سے زیادہ  وصول کرنا جائز نہیں ہے۔

دوسری صورت:ٹریول ایجنسی،ایئرلائن کمپنی سے گروپ ٹکٹس باقاعدہ بالعوض لیتی ہے،مثلاًپچاس ٹکٹس ،اکانومی کلاس کے بالعوض لے لیے اور پھرٹریول ایجنسی مختلف قسطوں میں ایئرلائن کمپنی کی پالیسی کے مطابق قیمت کی ادائیگی کرتی ہے،اس صورت میں ٹریول ایجنسی کو یہ حق حاصل ہوتا ہے کہ وہ ان ٹکٹس کو جسے چاہے اور جس قیمت پر چاہے بالعوض دے دے،البتہ ٹریول ایجنسی اگر ساری ٹکٹس کسٹمرز کو بالعوض نہ دے سکی تو یہ ٹریول ایجنسی کا نقصان ہوگا،جبکہ پہلی صورت میں ٹریول ایجنسی اگر ایک ٹکٹ بھی  کسٹمر کو بالعوض نہ دے سکی تب بھی ٹریول ایجنسی کا کوئی نقصان نہیں ہوتا،لہٰذا مذکورہ  صورت میں ٹریول ایجنسی آپس کی رضامندی کے مطابق جس قیمت پر چاہے اپنے کسٹمر کو ٹکٹس بالعوض دے سکتی ہے ،البتہ مذکورہ صورت میں ٹریول ایجنسی کسٹمر پر واضح کردے کہ ہم ٹکٹ پہلے سےاپنے لیےبالعوض حاصل کرچکے ہیں اور آپ کو آپ کے ساتھ طے شدہ عوض پر دے رہے ہیں یا ہم ٹکٹ پہلے اپنے لیےبالعوض حاصل کریں گےاورپھرطے شدہ قیمت پرآپ کو دیں گے،اسی طرح یہ  بھی کسٹمر پر واضح کردے کہ ریٹ کم ہونے کی صورت میں ہمیں جتنی بھی بچت ہو،وہ ہماری ہوگی،آپ کے ساتھ معاملہ آپ کے ساتھ طے کی گئی قیمت پر ہی ہوگا۔

         مذکورہ تمہید اورتفصیل کے بعدبالترتیب آپ کے سوالات کے جوابات درج ذیل ہیں:

1)اگر ٹریول ایجنسی ایسے ٹکٹس بالعوض اپنے کسٹمر کو دے رہی ہے جسے پہلے سے گروپ ٹکٹس کی صورت میں بالعوض لیاہوا ہے تو پھر یہ غیر  مملوک کی بیع نہیں ہے بلکہ تاجیرمن الباطن ہے،البتہ ٹریول ایجنسی اگرایسے ٹکٹس اپنے کسٹمرکودےرہی ہے جسے پہلے سے گروپ ٹکٹس کی صورت میں بالعوض لیا ہوا  نہیں ہے تو ایسی صورت میں ٹریول ایجنسی اپنے کسٹمر اور ایئر لائن کمپنی کے درمیان فقط واسطہ ہے اوراپنے کسٹمر کے لیے خدمات سر انجام دے رہی ہے،لہٰذاایسی صورت میں ٹریول ایجنسی کے لیے اپنی سروسز کے عوض، ایک متعین اور طے شدہ کمیشن لینا جائز ہے، کسٹمر کو بتائےبغیراس سے اضافی رقم لینا جائز نہیں ہوگا۔

2)سوال نمبر ایک کے جواب میں ذکر کی گئی تفصیل اور اس سے پہلے ذکر کی گئی تمہیدکے مطابق ٹریول ایجنسی اگر ٹکٹ بالعوض حاصل کرکے پھر کسٹمر کو بالعوض دے رہی ہے تو کسٹمر پر واضح کردے کہ ہم ٹکٹ پہلے اپنے لیےبالعوض حاصل کریں گےاورپھرطے شدہ قیمت پرآپ کو دیں گے،اسی طرح یہ  بھی کسٹمر پر واضح کردے کہ ریٹ کم ہونے کی صورت میں ہمیں جتنی بھی بچت ہو،وہ ہماری ہوگی،البتہ اگر ٹریول ایجنسی اپنے کسٹمر اور ایئر لائن کمپنی کے درمیان فقط واسطے کا کردار ادا کر رہی ہے تو صرف طے شدہ کمیشن وصول کرسکتی ہے اور ٹکٹ اپنی حقیقی قیمت پر ہی کسٹمر کو دینا ضروری ہے،اس سے زیادہ وصول کرنا جائز نہیں ہے۔

المحیط البرهاني في الفقه النعماني (7/ 429) دار الكتب العلمية، بيروت:

الفصل السابع: في إجارة المستأجر: قال محمد رحمه الله: وللمستأجر أن يؤاجر البيت المستأجر من غيره، فالأصل عندنا: أن المستأجر يملك الإجارة فيما لا يتفاوت الناس في الانتفاع به؛ وهذا لأن الإجارة لتمليك المنفعة والمستأجر في حق المنفعة قام مقام الآجر،وكما صحت الإجارة من الآجر تصح من المستأجر أيضاً فإن أجره بأكثر مما استأجره به من جنس ذلك ولم يزد في الدار شيء ولا أجر معه شيئاً آخر من ماله مما يجوز عند الإجارة عليه، لا تطيب له الزيادة عند علمائنا رحمهم الله وعند الشافعي تطيب له الزيادة.

الموسوعة الفقهية الكويتية (1/ 253، بترقيم الشاملة آليا)

49  - جمهور الفقهاء ( الحنفيّة والمالكيّة والشّافعيّة والأصحّ عند الحنابلة ) على جواز إيجار المستأجر إلى غير المؤجّر الشّيء الّذي استأجره وقبضه في مدّة العقد ، ما دامت العين لا تتأثّر باختلاف المستعمل ، وقد أجازه كثير من فقهاء السّلف ، سواء أكان بمثل الأجرة أم بزيادة . وذهب القاضي من الحنابلة إلى منع ذلك مطلقاً لأنّ النّبيّ صلى الله عليه وسلم : « نهى عن ربح ما لم يضمن » والمنافع لم تدخل في ضمانه ، فلم يجز . والأوّل أصحّ لأنّ قبض العين قام مقام قبض المنافع .

إيجار المستأجر لغير المؤجّر بزيادة:

م - ذهب المالكيّة والشّافعيّة إلى جواز ذلك مطلقاً ، أي سواء أكانت الأجرة الثّانية مساويةً أم زائدةً أم ناقصةً ، لأنّ الإجارة بيع كما تقدّم ، فله أن يبيعها بمثل الثّمن ، أو بزيادة أو بنقص كالبيع ، ووافقهم أحمد في أصحّ الأقوال عنده .

أمّا قبل القبض فيجوز عند المالكيّة مطلقاً عقاراً كان أو منقولاً ، بمساو أو بزيادة أو بنقصان ، وهو غير المشهور عند الشّافعيّة وأحد الوجهين عند الحنابلة ، لأنّ المعقود عليه هو المنافع ، وهي لا تصير مقبوضةً بقبض العين فلا يؤثّر فيها القبض .

المعايير الشرعية: (ص:243)

3/3 : يجوز لمن استأجر عينا أن يؤجرها لغير المالك بمثل الأجرة أو بأقل أو بأكثر بأجرة حالة أومؤجلة (وهو ما يسمى التأجير من الباطن) مالم يشترط عليه المالك الامتناع عن الإيجار للغير أو الحصول على موافقة منه.

3) مذکورہ صورت میں ٹریول ایجنسی اگر ٹکٹ بالعوض حاصل کرکے پھر کسٹمر کو بالعوض دے رہی ہے تو کسٹمر پر واضح کردے کہ ہم ٹکٹ پہلے اپنے لیےبالعوض حاصل کریں گےاورپھرطے شدہ قیمت پرآپ کو دیں گے،اسی طرح یہ  بھی کسٹمر پر واضح کردے کہ ریٹ کم ہونے کی صورت میں ہمیں جتنی بھی بچت ہو،وہ ہماری ہوگی۔البتہ اگر ٹریول ایجنسی اپنے کسٹمر اور ایئر لائن کمپنی کے درمیان فقط واسطے کا کردار ادا کر رہی ہے تو صرف طے شدہ کمیشن وصول کرسکتی ہےاورٹکٹ اپنی حقیقی قیمت پر ہی کسٹمر کو دینا ضروری ہے،اس سے زیادہ وصول کرنا جائز نہیں ہے،لہٰذا مفروضہ صورت میں اگر ٹکٹ نوے ہزار کا پڑا ہے تو نوے ہزار روپے میں ہی کسٹمر کو دے اور اپنا متعین طے شدہ کمیشن وصول کرلے،کسٹمر کی رضامندی کے بغیراس سے اضافی رقم لیناجائز نہیں ہے۔

درر الحكام في شرح مجلة الأحكام (1/ 124)

(المادة 153) الثمن المسمى هو الثمن الذي يسميه ويعينه العاقدان وقت البيع بالتراضي سواء كان مطابقا للقيمة الحقيقية أو ناقصا عنها أو زائدا عليها.وعلى ذلك كما أن الثمن المسمى قد يكون بقيمة المبيع الحقيقية يكون أيضا أزيد من القيمة الحقيقية أو أنقص.

تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق وحاشية الشلبي (4/ 73)

المساومة :وهي التي لا يلتفت فيها إلى الثمن السابق.

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 47)

قال في البزازية: إجارة السمسار والمنادي والحمامي والصكاك وما لا يقدر فيه الوقت ولا العمل تجوز لما كان للناس به حاجة ويطيب الأجر المأخوذ لو قدر أجر المثل وذكر أصلا يستخرج منه كثير من المسائل فراجعه في نوع المتفرقات والأجرة على المعاصي.

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 63)

قال في التتارخانية: وفي الدلال والسمسار يجب أجر المثل، وما تواضعوا عليه أن في كل عشرة دنانير كذا فذاك حرام عليهم. وفي الحاوي: سئل محمد بن سلمة عن أجرة السمسار، فقال: أرجو أنه لا بأس به وإن كان في الأصل فاسدا لكثرة التعامل وكثير من هذا غير جائز، فجوزوه لحاجة الناس إليه كدخول الحمام وعنه قال: رأيت ابن شجاع يقاطع نساجا ينسج له ثيابا في كل سنة.

4,5)       ویزوں کی خرید وفروخت شرعاً بیع یا اجارہ یا اجارہ من الباطن کی تعریف میں نہیں آتی،کیونکہ ویزے کی تعریف کیمبرج ڈکشنری میں یہ کی گئی ہے:

“An official mark made in a passport which allows you to enter or leave a particular country”.

"ویزہ ،پاسپورٹ کی بنیاد پر ایک اجازت نامہ ہے جو حامل پاسپورٹ کو کسی خاص ملک میں داخلہ اور نکلنے کی سرکاری طور پر اجازت دیتا ہے"۔

اس تعریف کی رو سے ویزے کی شرعی حیثیت عقدِ استیمان کی ہےاور عقد استیمان کوئی ایسی چیز نہیں جس کو فروخت کیا جاسکے،لہٰذا ویزوں کی خرید و فروخت جائز نہیں ،بالخصوص جبکہ ویزہ جاری کرنے والی اتھارٹی کی طرف سے بھی اس کی اجازت نہ ہو،البتہ اگر کوئی شخص حامل پاسپورٹ اور کسی ملک کے مابین یہ عقد استیمان کروانے میں اپنی خدمات پیش کرے تو چونکہ اس صورت میں اسے حکومت سے اجازت لینے اور ویزہ حاصل کرنے میں محنت کرنی پڑتی ہےاور اس میں رقم بھی خرچ ہوتی ہے،اس لیے اگر کوئی شخص  پہلے سے طے کرکے اپنی خدمات کا معاوضہ لے تو اس کی گنجائش معلوم ہوتی ہے۔(ماخوذ از فتوی دارالعلوم کراچی)

مذکورہ تفصیل کے مطابق سوال نمبر چار اور پانچ کا جواب یہ ہے کہ ٹریول ایجنسی اپنے کسٹمر کے لیے ویزہ ارینج کرنے کی مد میں طے شدہ متعین کمیشن وصول کرسکتی ہے ،البتہ متعین کمیشن کے علاوہ ویزہ جتنے میں پڑا ہو اتنی رقم ہی کسٹمر سے وصول کرسکتی ہے،اس سے زیادہ نہیں،خواہ ویزہ بتائی گئی رقم کے مطابق لگا ہو یا اس سے کم پر یا زیادہ پر،اسی طرح اگر ویزہ لگانے کی کوشش کرنے کے باوجود ویزہ نہ لگ سکا تو ٹریول ایجنسی اپنی خدمات کے عوض اپنا کمیشن(سروس چارجز)وصول کرسکتی ہے بشرطیکہ کسٹمر کو پہلے سے بتادیا گیا ہو کہ  خواہ ویزہ لگے یا نہ لگے دونوں صورتوں میں ہم اپنا  متعین طے شدہ کمیشن(سروس چارجز)بہرحال وصول کریں گے۔

بحوث فی قضایا فقهية معاصرة،بیع الحقوق المجردة (94/10)

وإن للعرف مجالاً في إدراج بعض الأشياء في الأموال، فإن الماليةكما يقول ابن عابدين رحمہ اللہ تثبت بتمول الناس؛ فلو كانت بعض الحقوق تعتبر في العرف أموالاً متقومة، وتعامل بها الناس تعامل الأموال، فينبغي أن يجوز بيعها عندهم أيضاً بشروط آتية : -

1۔ أن يكون الحق ثابتاً في الحال، لا متوقعاً في المستقبل.

2۔أن يكون الحق ثابتاً لصاحبه أصالة، لا لدفع الضرر عنه فقط .

3۔أن يكون الحق قابلاً للانتقال من واحد إلى آخر .

4۔أن يكون الحق منضبطاً بالضبط، ولا يستلزم غرراً أو جهالة .

5۔أن يكون في عُرف التجار يسلك به مسلك الأعيان والأموال في تداولها .

الفتاوى الهندية (4/ 411)

وأما بيان أنواعها(الإجارة) فنقول إنها نوعان: نوع يرد على منافع الأعيان كاستئجار الدور والأراضي والدواب والثياب وما أشبه ذلك ونوع يرد على العمل كاستئجار المحترفين للأعمال كالقصارة والخياطة والكتابة وما أشبه ذلك، كذا في المحيط.

البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري (5/ 44)

لا يجوز لأحد من المسلمين أخذ مال أحد بغير سبب شرعي.

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 47)

قال في البزازية: إجارة السمسار والمنادي والحمامي والصكاك وما لا يقدر فيه الوقت ولا العمل تجوز لما كان للناس به حاجة ويطيب الأجر المأخوذ لو قدر أجر المثل وذكر أصلا يستخرج منه كثير من المسائل فراجعه في نوع المتفرقات والأجرة على المعاصي.

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 63)

قال في التتارخانية: وفي الدلال والسمسار يجب أجر المثل، وما تواضعوا عليه أن في كل عشرة دنانير كذا فذاك حرام عليهم. وفي الحاوي: سئل محمد بن سلمة عن أجرة السمسار، فقال: أرجو أنه لا بأس به وإن كان في الأصل فاسدا لكثرة التعامل وكثير من هذا غير جائز، فجوزوه لحاجة الناس إليه كدخول الحمام وعنه قال: رأيت ابن شجاع يقاطع نساجا ينسج له ثيابا في كل سنة.

6) مذکورہ سوال میں ذکر کی گئی صورت ایک ہی عقد میں کئی سارے عقود کو شامل کرنے کی ہے،جسے شریعت کی اصطلاح میں صفقہ فی صفقہ کہا جاتا ہے،اور جمہور فقہاء کی رائے کے مطابق  یہ معاملہ ناجائز ہے۔

البتہ موجودہ زمانے میں عرف یہ ہے کہ لوگ ایک ہی صفقہ میں مختلف  خدمات وغیرہ کا مجموعہ پیش کرکے جن میں سے کچھ کاتعلق بیع سے اور کچھ کا تعلق اجارہ وغیرہ  سے ہوتا ہے،ایک متعین عوض تمام خدمات کے عوض طے کرتے ہیں،اور ان میں سے ہر ایک معاملہ دوسرے کے ساتھ مشروط ہوتا ہے،اس طرح کے معاملےمیں قیاس کا تقاضا تو یہی ہے کہ یہ ناجائز ہو ،کیوں کہ اس میں ایک ہی صفقہ میں متعدد صفقات کو مشروط طور پر جمع کیا جاتا ہے،لیکن ایسے معاملات کا تعامل ہوچکا ہے اور ان میں موجود جہالت مفضی الی النزاع بھی نہیں ہے،لہٰذا صفقہ فی صفقہ کی فقہاء کی بیان کردہ تفصیلات و تشریحات کی روشنی میں سوال میں ذکر کی گئی صورت  کہ جس میں ٹریول ایجنسی ایک پیکج کا ذکرکرکے جس میں ایئر لائن ٹکٹ،ویزہ،ہوٹل،ٹرانسپورٹ ،زیارات اور طعام وغیرہ سب شامل ہوتا ہے،کا متعین عوض لیتی ہے،اس کی گنجائش معلوم ہوتی ہے۔

رہی بات کسٹمر کی رضا مندی کے بغیر،خدمات کی لاگت میں  تبدیلی کی وجہ سے، پیکج کی رقم میں بعد میں تبدیلی کرنا،یہ جائز نہیں ہے،البتہ  فریقین باہمی رضامندی سے بعد میں بھی پیکج کی رقم میں تبدیلی کرسکتے ہیں۔

فقہ البیوع (1/513)

 - 235الصور المتعارفة للجمع بين صفقات

ومما تعورف في عصرنا أنّ النّاس يلتزمون تقديم مجموعة من الخدمات في صفقة واحدة، بعضها ترجع إلى الإجارات، وبعضها ترجع إلى البيوع، فوكلاء السفر يقدمون خدمات الحج والعمرة مثلاً، فيلتزمون جميع حاجات المسافر في صفقة واحدة، بما فيها الحصول على التأشيرة، وإكمال الإجراءات القانونية، وتذاكر عدة من الأسفار الجوية والبرية، والإقامة في فنادق، أو في الخيام في مواضع متعددة، وثلاث وجبات للأكل يوميا، مع جهالة نوعها ومقدارها، ويتقاضون لهذه المجموعة أجراً مقطوعاً. فهذه مجموعة عدة عقود بعضُها إجارات، وبعضُها بيوع، وكلُّ واحدٍ منها مشروط بالعقودالأخرى.وكذلك أجر الإقامة في بعض الفنادق تشمل الفطور، أو الوجبات الثلاثة مع الجهالة في نوعها وقدرها. فظاهر القياس أن لا يجوز، لأنه اشتراط صفقات في صفقة واحدة، مع الجهالة فيما هو مبيع، ولكن جرى به التعامل من غير نكير، والجهالة غير مُفضيةإلى النزاع، فصار هذا المجموع جائزاً.

المعیار الشرعی رقم (11)

4/2/1۔ إذا وجدت ظروف طائرۃ تستدعی تعدیل ثمن الاستصناع زیادۃ أو نقصاً فإنہ یجوز باتفاق الطرفین، أو بالتحکیم، أو بالرجوع إلی القضاء،مع مراعاۃ البند 4/1/3.

4/1/3۔لا یجوز زیادۃ الثمن لتمدید أجل السداد. أما تخفیض الثمن عند تعجیل السداد فیجوز إذا کان غیر مشترط في العقد.

7) مذکورہ صورت میں دو معاملات سرانجام دیے جارہے ہیں،پہلا معاملہ ٹریول ایجنسی اور سعودیہ میں رہنے والے شخص کے مابین ہےاور دوسرا معاملہ ٹریول ایجنسی اور ٹریول ایجنسی کے کسٹمر کے درمیان ہے۔اگرمذکورہ دونوں معاملات درج ذیل ترتیب سے کیے جائیں تو شرعاً درست ہیں۔

  ٹریول ایجنسی سعودیہ میں رہنے والے شخص سے ریال خریدے اور طے شدہ قیمت اُسےاسی وقت ادا کردےیا اس کے اکاؤنٹ میں بلا تاخیر ٹرانسفر کرے،اگرچہ ریال پر قبضہ ابھی نہ کرے،دوسری جانب کسٹمر سے وعدہ بیع کرے کہ آپ سعودیہ پہنچیں گے تو ہم ریال کی فراہمی طے شدہ ریٹ پر یقینی بنائیں گے،پھر کسٹمر کو جتنے ریال بیچنے کا ارادہ ہو اتنے ریال پر قبضہ کرنے کا اُسے وکیل بنادے کہ سعودیہ میں فلاں شخص سے آپ ٹریول ایجنسی کی طرف سے ریال وصول کرلیں،جب کسٹمر وصول کرلے پھر ٹریول ایجنسی اپنے وعدے پر عمل کرتے ہوئے طے شدہ قیمت پر وہ ریال کسٹمر کو  بیچ دے۔مذکورہ تفصیل تو اس صورت میں ہے جب کہ سعودیہ میں رہنے والے شخص کے پاس ریال پہلے سے رکھے ہوئے ہوں البتہ اگر اس کے پاس ریال نہ ہوں توایسی صورت میں ٹریول ایجنسی عقد کرنے کے بجائے وعدہ بیع کرے،پھرجب سعودیہ میں رہنے والے شخص کے پاس ریال کا انتظام ہوجائےتو باقاعدہ عقد کرکے اس سے خرید لے،اوراپنے کسٹمر سے پہلی صورت میں بتائے گئے طریقے کے مطابق معاملہ سر انجام دے۔

(المعاییر الشرعیۃ،المرابحۃ،ص:210)

3/1/3۔ الأصل أن تشتري المؤسسة السلعة بنفسها مباشرة من البائع ويجوز لها ذلك عن طريق وكيل غير الأمر بالشراء، ولا تلجأالتوكيل العميل (الأمر بالشراء) إلا عند الحاجة الملحة.

ولا يتولى الوكيل البيع لنفسه، بل تبيعه المؤسسة بعد تملكهاالعين، وحينئذ يراعى ما جاء في البند (3/1/5).

3/1/4 ۔ يجب اتخاذ الإجراءات التي تتأكد المؤسسة فيها من توافرشروط محددة في حالة توكيل العميل بشراء السلعة، ومنها:

(أ) أن تباشر المؤسسة دفع الثمن للبائع بنفسها وعدم إيداع ثمن السلعة في حساب العميل الوكيل. كلما أمكن ذلك.

(ب) أن تحصل من البائع على وثائق للتأكد من حقيقة البيع.

3/1/5۔يجب الفصل بين الضمانين ضمان المؤسسة، وضمان العميل الوكيل عن المؤسسة في شراء السلعة لصالحها، وذلك بتخلل مدة بين تنفيذ الوكالة وإبرام عقد المرابحة من خلال الإشعار من العميل بتنفيذ الوكالة والشراء، ثم الإشعار من المؤسسة بالبيع (ينظر الملحق «أ» والملحق (ب).

8) مذکورہ صورت جائز ہے،اسےفقہاء کی اصطلاح میں حوالہ مقیدہ کہا جاتا ہے،یعنی مذکورہ صورت میں  آپ کے ذمے میں سعودی کمپنیوں کا جو دین ہوتا ہے،آپ اس دین کی ادائیگی اپنے اُن ریالوں کے ذریعے کرواتے ہیں جو آپ کے اپنے دوست کے ذمے ہوتے ہیں،اور اس طرح کرنا جائز ہے۔

سوال نمبر سات اور آٹھ میں مذکور صورت میں اس بات کا خیال لازمی رکھیں کہ جب آپ اپنے دوست سے ریال کی خریداری کا عقد کریں تو عقد کرتے ہی آپ پیسے بھیج دیں یا عقد کرتے ہی اپنے ریال اپنے کسٹمر کے ذریعے (سوال نمبر سات والی صورت میں) وصول کرلیں یا جس کمپنی کو یہ ریال ادا کرنے ہیں ان کے حوالے کروادیں ،یعنی کم از کم کسی ایک جانب سے عقد کرتے ہی پیسوں کی ادائیگی کردی جائے تاکہ دونوں جانب سے ادھار ہونے کی خرابی لازم نہ آئے،کیوں کہ شرعاً یہ ممنوع ہے۔

فقہ البیوع (1/437)

198 - الحوالة المقيدة

أما الحوالة المُقيّدة، فأن يُقيّد قضاءُ دين الحوالة بأن يكون من مال المحيل الذي عند المحال عليه، أو فى ذمته. مثاله كان لزيد على عمرو ألف درهم ديناً، أو وديعة، أو غصباً. ثم صار زيد مديناً لخالد بألف درهم. فيقول زيد لخالد: "أحلتك على عمرو، لتأخذ منه الألف التي هي لى فى ذمته . " فحينما يُعطيه عمر و ألف درهم، يُستوفى به الدينان.

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (5/ 202)

(ومنها) أن يكون مقبوضا في مجلس السلم لأن المسلم فيه دين، والافتراق لا عن قبض رأس المال يكون افتراقا عن دين بدين وإنه منهي عنه لما روي أن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - «نهى عن بيع الكالئ بالكالئ» أي النسيئة بالنسيئة.

9) سوال نمبر ایک کے جواب میں ذکر کی گئی تفصیل اور اس سے پہلے ذکر کی گئی تمہیدکے مطابق اگرٹریول ایجنسی پہلی صورت اختیارکرتی ہے،جس میں ٹریول ایجنسی گروپ ٹکٹس ایئرلائن کمپنی سے باقاعدہ بالعوض اپنے لیے حاصل کرکےپھرآگے  کسٹمر کو بالعوض دیتی ہےاور اس کا سبب  بھی مخصوص کسٹمر ہی ہو ،یعنی اگر وہ مخصوص کسٹمر نہ ہوتا تو ٹریول ایجنسی یہ ٹکٹس نہ لیتی تو  ایسی صورت میں فقط حقیقی کٹوتی کی حد تک کسٹمر سے ٹریول ایجنسی پیسے لے سکتی ہے ،اس کے علاوہ لینا جائز نہیں ہے،اور اگر اس کاسبب مخصوص کسٹمر نہ ہو تو ٹریول ایجنسی عقد جدید کے تحت کسٹمر سے یہ ٹکٹ لے لے اور اس عقد جدید میں فقط ایئرلائن کمپنی کی جانب سے کی جانے والی کٹوتی کی حد تک رقم کم کرے،اور اگر یہ صورت نہ ہو بلکہ ٹریول ایجنسی نے محض واسطہ بن کر کمیشن ایجنٹ کے طور پر ٹکٹ لیا ہو اور اب کسٹمر کینسل کر رہا ہو، جس کی وجہ سے ایئرلائن کمپنی کٹوتی کرکے پیسے واپس کر رہی ہو تو ایسی صورت میں ٹریول ایجنسی صرف اپنا کمیشن(سروس چارجز)وصول کرسکتی ہے،بشرطیکہ پہلے سے صراحت ہو کہ ایک مرتبہ ٹکٹ کروانے کے بعد اگر آپ نے کینسل کروایا تب بھی ہم اپنا کمیشن (سروس چارجز) وصول کریں گے،اس کے علاوہ مزید رقم کسٹمر سے لینا جائز نہیں ہے۔

تکملۃ فتح الملہم،مبحث بیع الحقوق المجردۃ(364/1)

الحقوق التي تتعلق بإجازات مكتوبة : والنوع الرابع من الحقوق عبارة عن حق الإستفادة الإجازات كتبها المجيز على ورقة ، فثبتت الإجازة لكل من يحملها ، مثل طوابع البريد فإنها عبارة عن إجازة استعمال البريد ، ومثل تذاكر القطار والطائرة والأتوبيسات ، فإنها عبارة عن إجازة استعمالها لكل من يحملها ، ولم أر عند الفقهاء حكما صريحاً لبيع مثل هذه الحقوق، ولكن الذى يظهر أن الإجازة المكتوبة إن كانت مقتصرة على من أعطيها باسمه الخاص ، فلا يجوز بيعها ، كما في تذكرة الطائرة فإنها تكون مخصوصة بالاسم ، فلا يجوز بيعها لكون الشركة انما رضيت بعقد الإجارة مع رجل مخصوص ، فلا يجوز له أن ينقل هذا الحق إلى غيره .وأما إذا كانت الإجازة غير مخصوصة باسم رجل ، فينبغي أن يجوز بيع ورقة الإجازة ، مثل طوابع البريد ، فإنها لا تكون لرجل مخصوص ، وهي في الحقيقة عبارة عن استيجار البريد لإرسال الرسائل أو غيرها من الأشياء، فلو اشتراها رجل من مكتب البريد ثم باعها إلى آخر ، فلا وجه للمنع فيه ، وينبغى أن يجوز فيه الاسترباح أيضا ، إما لأن الطوابع عين قائمة ، وإما لأنها حقوق في ضمن الأعيان ، ففارقت الحقوق المجردة ، وإما لأن الربح الذي يحصل لبائعه أجرة ما عمل في الحصول على الطوابع ، فأشبهت أجرة السمسار. وكذلك حكم التذاكر التي لا تكون باسم مخصوص ، بل تكون إجازتها مفتوحة لكل من يحملها.

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 47)

قال في البزازية: إجارة السمسار والمنادي والحمامي والصكاك وما لا يقدر فيه الوقت ولا العمل تجوز لما كان للناس به حاجة ويطيب الأجر المأخوذ لو قدر أجر المثل وذكر أصلا يستخرج منه كثير من المسائل فراجعه في نوع المتفرقات والأجرة على المعاصي.

العقود الدرية في تنقيح الفتاوى الحامدية (1/ 247)

(سئل) في دلال سعى بين البائع والمشتري وباع المالك المبيع بنفسه والعرف أن الدلالة على البائع فهل تكون على البائع؟

(الجواب) : نعم وفي فوائد صاحب المحيط الدلال إذا باع العين بنفسه ثم أراد أن يأخذ من المشتري الدلالة ليس له ذلك؛ لأنه هو العاقد حقيقة وتجب على البائع الدلالة؛ لأنه فعل بأمر البائع هكذا أجاب ثم قال ولو سعى الدلال بينهما وباع المالك بنفسه يضاف إلى العرف إن كانت الدلالة على البائع فعليه وإن كانت على المشتري فعليه وإن كانت عليهما فعليهما عمادية من أحكام الدلال وما يتعلق به ومثله في الفصولين وشرح التنوير للعلائي من البيع.

10) سوال میں ذکر کی گئی صورت سے بظاہر یہ معلوم ہورہا ہے کہ ابتداءً معاملہ مضاربت کے طور پر کیا گیاکہ جس میں انویسمنٹ ایک فریق کی طرف سے ہوتی ہے اور دوسرے فریق کی طرف سے خدمات فراہم کی جاتی ہیں ،اور فریقین نفع کی طے شدہ فیصد کے مطابق منافع میں شریک ہوتے ہیں ،لیکن آگے چل کر عملاً ایسا نہیں ہوا بلکہ خدمات فراہم کرنے والافریق ماہانہ فکس رقم اجرت کے طور پر وصول کرتا رہا،حالانکہ مضاربت میں نفع کا حصہ اور اجرت دونوں کو جمع نہیں کیا جاسکتا،پھر مزید کچھ عرصے بعد خدمات فراہم کرنے والافریق ماہانہ فکس اجرت کی وصولی کے ساتھ ساتھ نفع میں سے فیصدی حصہ بھی وصول کرتا رہا،جبکہ اصل عقد کے مطابق خدمات فراہم کرنے والے فریق کا حق فقط نفع میں شرکت کی حد تک تھا،لیکن  وہ اجرت بھی وصول کرتا رہا۔

مذکورہ تفصیل کے مطابق چونکہ یہ معاملہ مضاربت کے اصولوں کے مطابق درست نہیں ،لہٰذا خدمات فراہم کرنے والا فریق آئندہ کے لیے منافع میں  فقط طے شدہ متعین فیصدی حصےکی حد تک وصول کرے ،اجرت کے طور پر فکس رقم نہ لے ،البتہ یوں کیا جاسکتا ہے کہ دوسرے فریق کی رضامندی سے  نفع میں اپنا فیصدی  حصہ بڑھا لے۔

مذکورہ تفصیل کی روشنی میں آپ کے سوال کا جواب یہ ہے کہ جو رقم اجرت کے طور پر آپ نے والد صاحب سے لی ہے،اس رقم پر آپ کا استحقاق نہیں تھا ،لہٰذا وہ رقم والد صاحب کو واپس کریں ،البتہ اگر آپ کے والد صاحب وہ رقم آپ سے واپس نہ لینا چاہیں تو وہ ایسا کرسکتے ہیں۔آئندہ کے لیے یا تو فکس ماہانہ اجرت پر معاملہ کریں یعنی ہر ماہ طے شدہ رقم اجرت کے طور پر وصول کریں ،خواہ ٹریول ایجنسی کو مجموعی طور پر نفع ہو یا نہ ہو،یا پھر عقد مضاربہ کرتے ہوئے حقیقی نفع میں اپنا متعین فیصدی حصہ  طے کرلیں ،اس صورت میں اگر ٹریول ایجنسی کو نفع ہوگا تو نفع کا استحقاق فریقین میں سے ہر ایک کو طے شدہ فیصدی حصے کے مطابق ہوگااور اگر نفع نہ ہو ا تو خدمات فراہم کرنے والے فریق کو کچھ نہیں ملے گا۔

حوالہ جات

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (6/ 85)

(وأما) الذي يرجع إلى الربح فأنواع.

(منها) إعلام مقدار الربح؛ لأن المعقود عليه هو الربح، وجهالة المعقود عليه توجب فساد العقد.

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (6/ 85)

(ومنها) أن يكون المشروط لكل واحد منهما من المضارب ورب المال من الربح جزءا شائعا، نصفا أو ثلثا أو ربعا، فإن شرطا عددا مقدرا بأن شرطا أن يكون لأحدهما مائة درهم من الربح أو أقل أو أكثر والباقي للآخر لا يجوز، والمضاربة فاسدة؛ لأن المضاربة نوع من الشركة، وهي الشركة في الربح، وهذا شرط يوجب قطع الشركة في الربح؛ لجواز أن لا يربح المضارب إلا هذا القدر المذكور، فيكون ذلك لأحدهما دون الآخر، فلا تتحقق الشركة، فلا يكون التصرف مضاربة، وكذلك إن شرطا أن يكون لأحدهما النصف أو الثلث ومائة درهم، أو قالا: إلا مائة درهم فإنه لا يجوز كما ذكرنا أنه شرط يقطع الشركة في الربح؛ لأنه إذا شرطا لأحدهما النصف ومائة، فمن الجائز أن يكون الربح مائتين، فيكون كل الربح للمشروط له، وإذا شرطا له النصف إلا مائة، فمن الجائز أن يكون نصف الربح مائة، فلا يكون له شيء من الربح.

المغني لابن قدامة (5/ 8)

فصل: وإن دفع رجل دابته إلى آخر ليعمل عليها، وما يرزق الله بينهما نصفين أو أثلاثا أو كيفما شرطا، صح، نص عليه في رواية الأثرم ومحمد بن أبي حرب وأحمد بن سعيد. ونقل عن الأوزاعي ما يدل على هذا. وكره ذلك الحسن، والنخعي وقال الشافعي، وأبو ثور، وابن المنذر وأصحاب الرأي: لا يصح، والربح كله لرب الدابة؛ لأن الحمل الذي يستحق به العوض منها.وللعامل أجر مثله؛ لأن هذا ليس من أقسام الشركة، إلا أن تكون المضاربة، ولا تصح المضاربة بالعروض، ولأن المضاربة تكون بالتجارة في الأعيان وهذه لا يجوز بيعها ولا إخراجها عن ملك مالكها. وقال القاضي: يتخرج أن لا يصح، بناء على أن المضاربة بالعروض لا تصح، فعلى هذا إن كان أجر الدابة بعينها فالأجر لمالكها، وإن تقبل حمل شيء فحمله، أو حمل عليها شيئا مباحا فباعه، فالأجرة والثمن له، وعليه أجرة مثلها لمالكها.

ولنا، أنها عين تنمى بالعمل عليها فصح العقد عليها ببعض نمائها، كالدراهم والدنانير، وكالشجر في المساقاة، والأرض في المزارعة. وقولهم: إنه ليس من أقسام الشركة، ولا هو مضاربة. قلنا: نعم، لكنه يشبه المساقاة والمزارعة، فإنه دفع لعين المال إلى من يعمل عليها ببعض نمائها مع بقاء عينها.وبهذا يتبين أن تخريجها على المضاربة بالعروض فاسد؛ فإن المضاربة إنما تكون بالتجارة والتصرف في رقبة المال، وهذا بخلافه. وذكر القاضي، في موضع آخر، في من استأجر دابة؛ ليعمل عليها بنصف ما يرزقه الله تعالى أو ثلثه، جاز. ولا أرى لهذا وجها؛ فإن الإجارة يشترط لصحتها العلم بالعوض، وتقدير المدة أو العمل، ولم يوجد، ولأن هذا عقد غير منصوص عليه، ولا هو في معنى المنصوص، فهو كسائر العقود الفاسدة، إلا أن يريد بالإجارة المعاملة على الوجه الذي تقدم.وقد أشار أحمد إلى ما يدل على تشبيهه لمثل هذا بالمزارعة، فقال: لا بأس بالثوب يدفع بالثلث والربع؛ لحديث جابر، «أن النبي - صلى الله عليه وسلم - أعطى خيبر على الشطر.» وهذا يدل على أنه قد صار في هذا ومثله إلى الجواز؛ لشبهه بالمساقاة والمزارعة، لا إلى المضاربة، ولا إلى الإجارة.

محمد حمزہ سلیمان

دارالافتا ء،جامعۃالرشید ،کراچی

۲۲.صفر۱۴۴۶ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد حمزہ سلیمان بن محمد سلیمان

مفتیان

مفتی محمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب