03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
جمعہ کے دن قبولیت کی گھڑی سے متعلق حدیث کی وضاحت
84693نماز کا بیانجمعہ و عیدین کے مسائل

سوال

ایک پوسٹ میں پڑھاکہ ایک حدیث کے مطابق" جمعے کے دن میں ایک گھڑی ایسی ہے کہ اس گھڑی کی موافقت کرتے ہوئےکوئی مسلمان بندہ نماز پڑھتے ہوئےاللہ تعالیٰ سے جو کچھ بھی مانگتا ہے،اللہ تعالیٰ اسے عطا کردیتے ہیں"،مذکورہ حدیث میں نماز کی حالت میں مانگنے کا کیا مطلب ہے؟اسی طرح وہ گھڑی کون سی ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

مکمل حدیث اور اس کاترجمہ ملاحظہ ہو۔

١٩٦٧ - وَحَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى، قَالَ قَرَأْتُ عَلَى مَالِكٍ ح وَحَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ، عَنْ أبي الزَّنَادِ، عَنِ الْأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صلى الله عليه وسلم ذَكَرَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ فَقَالَ: فِيهِ سَاعَةٌلَا يُوَافِقُهَا عَبْدٌ مُسْلِمٌ وَهُوَ يُصَلِّي يَسْأَلُ اللَّهَ شَيْئًا إِلَّا أَعْطَاهُ إِيَّاهُ. زَادَ قُتَيْبَهُ فِي رِوَايَتِهِ وَأَشَارَ بِيَدِهِ يُقَلِّلُهَا.  صحيح مسلم (3/ 5)

ترجمہ:

"حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جمعہ کے دن کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اس دن میں ایک ساعت ایسی ہے کہ کوئی مسلمان بندہ ایسا نہیں کہ جو اس وقت میں نماز پڑھے اور اللہ سے کچھ مانگے مگر یہ کہ اللہ تعالی اس کی مطلوبہ شی ضرور عطا کرتے ہیں ۔ قتیبہ نے اپنی روایت میں یہ اضافہ بھی نقل کیا ہے کہ ہاتھ سے اشارہ کیا کہ دہ گھڑی بہت تھوڑی سی ہے،( بڑی مختصر ہے )" ۔

مذکورہ حدیث کی وضاحت اور آپ کے سوالات کے جوابات درج ذیل ہیں۔

فيه ساعة:امام مسلم رحمہ اللہ نے اپنی کتاب صحیح مسلم میں کل سات روایات جمعہ کے دن قبولیت کی گھڑی کے حوالے سے نقل کی ہیں ،مذکورہ باب کی احادیث سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ جمعہ کے دن ایک گھڑی ایسی ہے کہ جو کوئی بندہ اس میں اللہ تعالی سے کوئی سوال کرتا ہےتواللہ تعالیٰ اسےقبول کرتے ہیں،البتہ اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمت کے تحت اس گھڑی کو پوشیدہ رکھا ہے تا کہ ہر آدمی جمعہ کے پورے دن عبادت اور دعاؤں کا خوب اہتمام کرےاور کسی خاص مختصر وقت کا انتظار نہ کرے۔

حدیث میں ذکر ہے کہ”الا اعطاه ایاه “یعنی اللہ تعالی اس کی مطلوبہ شی ضرور عطا کرتے ہیں،اس حوالے سے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ قبولیت دعا کی ایک صورت تو یہ ہوتی ہے کہ جو دعا مانگی اللہ تعالیٰ نے دنیا میں پوری فرمادی اور آدمی کو اس کے نتیجے کا علم ہو گیا ،دوسری صورت یہ ہوتی ہے کہ دنیا میں اس دعا کی قبولیت کا اثر ظاہر نہیں ہوتا،مگرقیامت کے روز اللہ تعالیٰ اس دعا کے بدلے میں اس شخص کو ثواب عطافرمادیتے ہیں،یہ بھی ”الا اعطاه ایاه “ کی ایک صورت ہے،اسی طرح کبھی قبولیت دعا کی صورت یہ بھی ہوتی ہے کہ دعا مانگنے والے پر ایک غیبی آفت آنے والی ہوتی ہے،مگر دعا کی برکت سے یہ مصیبت و آفت ٹل جاتی ہے، یہ بھی ”الا اعطاه ایاه “ کی ایک صورت ہے، بہر حال مسلمان کی دعا ضائع نہیں جاتی ہے۔

اسی طرح حدیث میں ذکر ہے”وھو یصلی“ اس جملہ کا ایک مطلب یہ ہے کہ واقعی وہ آدمی نماز میں کھڑا ہواور اللہ سے مانگ رہا ہواور قبولیت کی یہ مبارک گھڑی آ پہنچی ہو،اس کا دوسرا مطلب یہ بھی ہے کہ وہ آدمی نمازکے انتظار میں بیٹھا ہوا ہو،دعاؤں میں مشغول ہواور قبولیت کی یہ مبارک گھڑی آ پہنچی ہو،کیونکہ نماز کے انتظار میں بیٹھا ہوا شخص بھی حکما نماز میں شمار ہوتا ہے،اسی طرح ایک مطلب یہ بھی ہے کہ وہ آدمی مسلسل نماز پڑھتا ہو،یعنی نماز کی بہت پابندی کرتا ہو حتی کہ اسی حالت میں قبولیت کی اس گھڑی کو بھی پالے،اورایک مطلب یہ بھی ہے کہ یہاں صلوۃ سے مراد دعا ہو۔

اسی طرح حدیث میں ذکر ہے ”یقللها “ یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس گھڑی کو بہت مختصر بتایا کہ یہ بہت قلیل وقت ہوتا ہے۔

اسی طرح حدیث میں ذکر ہے” فیہ ساعۃ“ یعنی جمعہ کے دن قبولیت دعا کی جو گھڑی ہے،اس کے بارے میں تمام علماء کا تفاق ہے کہ یقینی طو ر پر اس گھڑی کا وجود ہوتا ہے،البتہ  وہ کون سی گھڑی ہے؟اس میں علماء کا اختلاف ہے،بعض علماء کی رائے یہ ہےکہ جس طرح اللہ تعالیٰ نے اسم اعظم کو پوشیدہ رکھا ہے اور شب قدر کو پوشیدہ رکھا ہے،اسی طرح جمعہ کی اس گھڑی کو بھی پوشیدہ رکھا ہے۔بعض علماء کی رائے  یہ ہے کہ وہ گھڑی ہر جمعہ میں بدلتی رہتی ہے، کسی جمعہ میں صبح کے وقت آتی ہے کسی میں ظہر یاز وال کے وقت آتی ہے اورکسی جمعہ میں عصر کے بعد آتی ہے۔ اکثر علماء کی رائے یہ ہے کہ وہ گھڑی جمعہ کےدن ایک متعین وقت میں آتی ہے، اب وہ متعین وقت کون ساہے؟مظاہر حق میں لکھا ہے کہ اس میں پینتیس اقوال ہیں،البتہ دوقول زیادہ راجح ہیں:

(۱)امام کے جمعہ کے خطبہ کے وقت سے لے کر نماز کےاختتام تک ۔

(۲)عصر کی نماز سے مغرب تک۔(ماخوذازتحفۃ المنعم،ص۳۴۳،جلد ثالث)

حوالہ جات

صحيح مسلم للنيسابوري (3/ 6)

۱۹۷۲-وحدثنى أبو الطاهر وعلى بن خشرم قالا أخبرنا ابن وهب عن مخرمة بن بكير ح وحدثنا هارون بن سعيد الأيلى وأحمد بن عيسى قالا حدثنا ابن وهب أخبرنا مخرمة عن أبيه عن أبى بردة بن أبى موسى الأشعرى قال قال لى عبد الله بن عمر أسمعت أباك يحدث عن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- فى شأن ساعة الجمعة قال قلت نعم سمعته يقول سمعت رسول الله -صلى الله عليه وسلم- يقول « هى ما بين أن يجلس الإمام إلى أن تقضى الصلاة ».

فتح الملھم بشرح صحیح مسلم،الجزء الخامس،ص۲۸۹،باب فی الساعۃ التی فی یوم الجمعۃ:

قوله : (فيه ساعة) إلخ : أبهمها هنا كليلة القدر، والاسم الأعظم، والرجل الصالح، حتى تتوافر الدواعي على مراقبة ذلك اليوم، وقد ورد إن لربكم في أيام دهركم نفخات ألا فتعرضوا لها ويوم الجمعة من جملة تلك الأيام، فينبغي أن يكون العبد في جميع نهاره متعرضاً لها بإحضار القلب وملازمة الذكر والدعاء والنزوع عن وساوس الدنيا، فعساه أن يحظى بشيءمن تلك النفخات، كذا قاله الزرقاني في شرح الموطأ.وحديث إن لربكم في أيام دهركم نفحات، ألا فتعرضوا لها قال العراقي : أخرجه الترمذي الحكيم في النوادر، والطبراني في الأوسط، من حديث محمد بن سلمة، ولا بن عبد البر في التمهيد نحوه من حديث أنس، ورواه ابن أبي الدنيا في كتاب المفرج من حديث أبي هريرة،واختلف في إسناده اهـ .

قوله : (لا يوافقها عبداً) إلخ : أي لا يصادفها، وهو أعلم من أن يقصد لها أو يتفق وقوع الدعاء فيها .

قوله : (وهو يصلي) إلخ : وفي موطأ مالك : وهو قائم يصلي فقوله: «وهو قائم جملة اسمية حالية، وقوله : يصلي جملة فعلية حالية .

قوله : (يسأل الله شيئاً) إلخ : مما يليق أن يدعو به المسلم، وفي بعض الروايات : يسأل الله خيراً» .

قوله : إلا أعطاه إياه إلخ : ولأحمد من حديث سعد بن عبادة: «ما لم يسأل إثماً أوقطيعة رحم والقطيعة من الإثم، فهو من عطف الخاص على العام، للاهتمام به، وفي الأوسط للطبراني من حديث أنس قال : عرضت الجمعة على رسول الله .... الحديث. وفيه : وفيها ساعة لا يدعو عبد ربه بخير هو له قسم - إلا أعطاه، أو يتعوذ من شر إلا دفع عنه ما هوأعظم منه ففي هذا الحديث أنه لا يجاب إلا فيم قسم له، وهو كذلك، ولعله لا يلهم الدعاء إلا بما قسم له، جمعاً بينه وبين الحديث الذي أطلق فيه أنه يعطي ما سأله . كذا في شرح الإحياء.

قال الحافظ في الفتح : وأفاد ابن عبد البر أن قوله : وهو قائم» سقط من رواية أبي مصعب، وابن أبي أويس، ومطرف والتنيسي، وقتيبة، وأثبتها الباقون، قال: وهي زيادة محفوظة عن أبي الزناد من رواية مالك وورقاء وغيرهما عنه، وحكى أبو محمد بن السيد عن محمد بن وضاح أنه كان يأمر بحذفها من الحديث، وكأن السبب في ذلك أنه يشكل على أصح الأحاديث الواردة في تعيين هذه الساعة، وهما حديثان:

أحدهما : أنها من جلوس الخطيب على المنبر إلى انصرافه من الصلاة.

والثاني: أنها من بعد العصر إلى غروب الشمس .

وقد احتج أبو هريرة على عبد الله بن سلام، لما ذكر له القول الثاني بأنها ليست ساعة صلاة، وقد ورد النص بالصلاة، فأجابه بالنص الآخر أن منتظر الصلاة في حكم المصلي، فلوكان قوله : وهو قائم عند أبي هريرة ثابتاً : لاحتج عليه بها ، لكنه سلم له الجواب وارتضاه،وأفتى به بعده .

وأما إشكاله على الحديث الأول فمن جهة أنه يتناول حال الخطبة كله، وليست صلاة على الحقيقة، وقد أجيب عن هذا الإشكال بحمل الصلاة على الدعاء، أو الانتظار، وبحمل القيام على الملازمة والمواظبة.

ويؤيد ذلك أن حال القيام في الصلاة غير حال السجود والركوع والتشهد، مع أن السجودمظنة إجابة الدعاء، فلو كان المراد بالقيام حقيقة لأخرجه، فدل على أن المراد مجاز لقيام، وهو المواظبة ونحوها، ومنه قوله تعالى : ﴿إِلَّا مَا دُمْتَ عَلَيْهِ قَابِمَا ﴾ [آل عمران : ٧٥] فعلى هذا يكون التعبير عن المصلي بالقائم من باب التعبير عن الكل بالجزء، والنكتة فيه أنه أشهر أحوال الصلاةاهـ.

قال الزرقاني : ولا يظهر قوله : فعلى هذا لأن الحديث جمع بينهما، فقال: وهو قائم يصلي اهـ .

قلت : وزيادة «قائم يصلي ثابتة في حديث أبي هريرة من طريق محمد عنه، كما سيأتي،فلا وجه لإسقاطها وحذفها، والله أعلم .

 قوله : (وأشار بيده يقللها) إلخ : ترغيباً فيها، وحضاً عليها، ليسارة وقتها وغزارة فضلها .قاله الزين بن المنير .

محمد حمزہ سلیمان

دارالافتا ء،جامعۃالرشید ،کراچی

         ۲۲.صفر۱۴۴۶ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد حمزہ سلیمان بن محمد سلیمان

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب