03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
حرام آمدن والے یا مشتبہ آمدن والے سے دعوت کھانے کا حکم
84733جائز و ناجائزامور کا بیانجائز و ناجائز کے متفرق مسائل

سوال

میرے کولیگز(2139 exchange )سے پیسہ کما رہے ہیں اور انہوں نے دعوت کی کھانے کی تو میں نے کھا لیا،لیکن بعد میں اپنے حصے کے کھانے کے پیسے دیے ،انہوں نے نہیں لیے تو کیا ان کے ساتھ اس طرح اس پرافٹ سے کھانا جائز ہے ؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

اصولی طور پرسودیاکسی بھی حرام طریقےسےکمانےوالے کےبارےمیں اگریہ معلوم ہوکہ اس کااکثر مال حرام ہےتوایسےشخص سےدعوت کھاناجائزنہیں ہے،لیکن اگروہ وضاحت کردے کہ یہ دعوت یاکھاناوغیرہ خاص طورپرحلال مال سےتیارکیاگیاہےتوپھر ایسے شخص سے دعوت کھاناجائزہےاوراگردعوت کرنے والے کا اکثر مال حلال ہوتوایسی صورت میں بھی اس شخص سے دعوت کھانا جائز ہے۔

مذکورہ صورت میں آپ کے دوست نے جو انویسٹمنٹ 2139 exchange کمپنی میں کی تھی وہ انویسمنٹ اگر جائز مال سے تھی تو اس کے بقدر رقم (2139 exchange) کمپنی سے واپس لینا،اس کا استعمال کرنا یا دعوت وغیرہ کرنا جائز ہے،لہٰذا اگر اس رقم سے انہوں نے دعوت کی تھی تو آپ کے لیے اس دعوت کا کھانا جائز تھا،لیکن اگر آپ کے دوست نے انویسٹمنٹ سے زیادہ رقم (2139 exchange) کمپنی سے واپس لی ہے تو پھر یہ دیکھا جائے گا کہ ان کے پاس موجود اکثر مال اگر حلال تھا تو آپ کے لیے دعوت کھانا جائز تھااور اگر اکثر مال حرام تھا تو آپ کے لیے دعوت کھانا جائز نہیں تھا،اگردعوت کھالی ہے تو توبہ استغفار لازم ہے۔

حوالہ جات

المحيط البرهاني في الفقه النعماني"ج 10 / 178

وفي «عيون المسائل»: رجل أهدى إلى إنسان أو أضافه إن كان غالب ماله من حرام لا ينبغي أن يقبل ويأكل من طعامه ما لم يخبر أن ذلك المال حلال استقرضه أو ورثه، وإن كان غالب ماله من حلال فلا بأس بأن يقبل ما لم يتبين له أن ذلك من الحرام؛ وهذا لأن أموال الناس لا تخلو عن قليل حرام وتخلو عن كثيره، فيعتبر الغالب ويبنى الحكم عليه۔ 

"مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر" 8 / 138

)ولا يجوز قبول هدية أمراء الجور ) لأن الغالب في مالهم الحرمة ( إلا إذا علم أن أكثر ماله من حل ) بأن كان صاحب تجارة أو زرع فلا بأس به ۔

وفي البزازية غالب مال المهدي إن حلالا لا بأس بقبول هديته وأكل ماله ما لم يتبين أنه من حرام ؛ لأن أموال الناس لا يخلو عن حرام فيعتبر الغالب وإن غالب ماله الحرام لا يقبلها ولا يأكل إلا إذا قال إنه حلال أورثته واستقرضته ولهذا قال أصحابنا لو أخذ مورثه رشوة أو ظلما إن علم وارثه ذلك بعينه لا يحل له أخذه وإن لم يعلمه بعينه له أخذه حكما لا ديانة فيتصدق به بنية الخصماء.

محمد حمزہ سلیمان

دارالافتا ء،جامعۃالرشید ،کراچی

         ۲۳.صفر۱۴۴۶ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد حمزہ سلیمان بن محمد سلیمان

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب