84692 | طلاق کے احکام | طلاق کے متفرق مسائل |
سوال
حضرات مفتیانِ کرام اس مسئلہ کے بارے میں کیا فرماتے ہیں:
بیوی نے تین بار سوال کیا، کیا آپ نے مجھے چھوڑ دیا؟ کیا آپ نے مجھے چھوڑ دیا؟ کیا آپ نے مجھے چھوڑ دیا؟ اور شوہر نے ہر بار جواب دیا: "جی ہاں"۔اس صورتحال میں طلاق کے حوالے سے شریعت کا کیا حکم ہوگا؟نیز عدت کی تفصیل بھی بتادیجیے۔
تنقیح:سائل نے واٹساپ پر وضاحت کہ ہے کہ "ایک سال سے مذاکرہ طلاق جاری ہے،بیوی نے کہا کہ آپ مجھے خرچہ نہیں دے سکتے لہٰذا آپ مجھے طلاق دے دیں،خاوند نےکہا کہ میں تجھے طلاق دیتا ہوں،دوسری مرتبہ کہا کہ میں تجھے چھوڑتا ہوں اور تیسری مرتبہ کہا کہ میں تجھے آزاد کرتا ہوں،اس موقع پر دونوں کی نیت یعنی عورت کی نیت طلاق لینے کی تھی اور مرد کی نیت طلاق دینے کی تھی،دوسری مجلس میں مرد خود اپنی مذکورہ بیوی کی بہن سے کہتا ہے کہ اب تم خوش ہوجاؤ ،میں نے تمہاری بہن کو آزاد کردیا ہے،اس کی بہن پوچھتی ہے کہ آزادی سے کیا مراد ہے؟طلاق دے دی ہے؟مرد نے کہا ہاں! طلاق دے دی ہے۔بہن نے پوچھا کتنی طلاقیں دی ہیں؟مرد کہتا ہے میں نے تین طلاقیں دی ہیں۔تحریر کے طور پر لکھ دیا ہےکہ میں نے تین طلاقیں دے دی ہیں،پھر تیسری مجلس میں عورت نے مرد سے کہا کہ اب تو آپ نے مجھے طلاقیں دے دی ہیں ،اب میں اپنے گھر والوں کے پاس چلی جاؤں؟شوہر کہتا ہے کہ ہاں تو اب مجھ سے ہمیشہ کے لیے آزاد ہے،اب میرا تیرے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے،تو اپنے گھر چلی جا"۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
مذکورہ صورت میں جب مرد نے پہلی مجلس میں کہا کہ میں تجھے طلاق دیتا ہوں،اس سے ایک طلاق رجعی واقع ہوگئی،پھر کہا کہ میں تجھے چھوڑتا ہوں ،اس سے دوسری طلاق رجعی واقع ہوگئی اورتیسری مرتبہ کہا کہ میں تجھے آزاد کرتا ہوں ،اس سے تیسری طلاق واقع ہوکرحرمت مغلظہ ثابت ہوچکی ہے،اب عورت مذکورہ مرد کے لیے حلال نہیں رہی لہٰذا عورت اپنی عدت گزار کر دوسری جگہ شادی کرنے میں آزاد ہوگی۔
عدت شوہر کے طلاق دینے کے فورا بعد ہی خود بخودشروع ہوجاتی ہے،اس لیے جس وقت شوہر نےمذکورہ الفاظ کہے تھےاس وقت سے عدت شروع ہوچکی ہے،تفصیل اس کی یہ ہے کہ حائضہ)جس عورت کو ماہواری آتی ہو) عورت کی عدت تین ماہواریاں ہیں اور جس عورت کو حیض)ماہواری) نہیں آتا اس کی عدت تین مہینے ہیں،لہٰذا شوہر کے مذکورہ الفاظ کہنے کے بعد اگرعورت کو تین ماہواریاں آچکی ہیں توعورت کی عدت گزرچکی ہے اور اگرعورت کو حیض نہیں آتا تو پھر شوہر کے مذکورہ الفاظ کہنے کے بعد اگرتین مہینےگزر چکے ہیں تو بھی عدت پوری ہوچکی ہے،عدت کے حوالے سے یہ حکم اس عورت کا ہے جوحاملہ نہ ہو،جو عورت حاملہ ہو اس کی عدت بچے کی ولادت تک ہوتی ہے۔
حوالہ جات
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 293)
(قوله كرر لفظ الطلاق) بأن قال للمدخولة: أنت طالق أنت طالق أو قد طلقتك قد طلقتك أو أنت طالق قد طلقتك أو أنت طالق وأنت طالق، وإذا قال: أنت طالق ثم قيل له ما قلت؟ فقال: قد طلقتها أو قلت هي طالق فهي طالق واحدة لأنه جواب، كذا في كافي الحاكم (قوله وإن نوى التأكيد دين) أي ووقع الكل قضاء، وكذا إذا طلق أشباه: أي بأن لم ينو استئنافا ولا تأكيدا لأن الأصل عدم التأكيد.
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 299)
ولو قال حلال " أيزدبروي " أو حلال الله عليه حرام لا حاجة إلى النية، وهو الصحيح المفتى به للعرف وأنه يقع به البائن لأنه المتعارف ثم فرق بينه وبين سرحتك فإن سرحتك كناية لكنه في عرف الفرس غلب استعماله في الصريح فإذا قال " رهاكردم " أي سرحتك يقع به الرجعي مع أن أصله كناية أيضا، وما ذاك إلا لأنه غلب في عرف الفرس استعماله في الطلاق وقد مر أن الصريح ما لم يستعمل إلا في الطلاق من أي لغة كانت، لكن لما غلب استعمال حلال الله في البائن عند العرب والفرس وقع به البائن ولولا ذلك لوقع به الرجعي.
والحاصل أن المتأخرين خالفوا المتقدمين في وقوع البائن بالحرام بلا نية حتى لا يصدق إذا قال لم أنو لأجل العرف الحادث في زمان المتأخرين، فيتوقف الآن وقوع البائن به على وجود العرف كما في زمانهم. وأما إذا تعورف استعماله في مجرد الطلاق لا بقيد كونه بائنا يتعين وقوع الرجعي به كما في فارسية سرحتك ومثله ما قدمناه في أول باب الصريح من وقوع الرجعي بقوله " سن بوش " أو " بوش " أول في لغة الترك مع أن معناه العربي أنت خلية، وهو كناية لكنه غلب في لغة الترك استعماله في الطلاق، وهذا ما ظهر لفهمي القاصر، ولم أر أحدا ذكره وهي مسألة مهمة كثيرة الوقوع فتأمل، ثم ظهر لي بعد مدة ما عسى يصلح جوابا، وهو أن لفظ حرام معناه عدم حل الوطء ودواعيه وذلك يكون بالإيلاء مع بقاء العقد وهو غير متعارف، ويكون بالطلاق الرافع للعقد، وهو قسمان: بائن ورجعي، لكن الرجعي لا يحرم الوطء فتعين البائن، وكونه التحق بالصريح للعرف لا ينافي وقوع البائن به، فإن الصريح قد يقع به البائن كتطليقة شديدة ونحوه: كما أن بعض الكنايات قد يقع به الرجعي، مثل اعتدي واستبرئي رحمك وأنت واحدة.
والحاصل أنه لما تعورف به الطلاق صار معناه تحريم الزوجة، وتحريمها لا يكون إلا بالبائن، هذا غاية ما ظهر لي في هذا المقام، وعليه فلا حاجة إلى ما أجاب به في البزازية من أن المتعارف به إيقاع البائن، لما علمت مما يرد عليه، والله سبحانه وتعالى أعلم.
"الفتاوى الهندية "(1/526(
"إذا طلق الرجل امرأته طلاقا بائنا أو رجعيا أو ثلاثا أو وقعت الفرقة بينهما بغير طلاق وهي حرة ممن تحيض فعدتها ثلاثة أقراء سواء كانت الحرة مسلمة أو كتابية كذا في السراج الوهاج.
والعدة لمن لم تحض لصغر أو كبر أو بلغت بالسن ولم تحض ثلاثة أشهر كذا في النقاية.....
وعدة الحامل أن تضع حملها كذا في الكافي. سواء كانت حاملا وقت وجوب العدة أو حبلت بعد الوجوب كذا في فتاوى قاضي خان ".
محمد حمزہ سلیمان
دارالافتا ء،جامعۃالرشید ،کراچی
۲۳.صفر۱۴۴۶ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | محمد حمزہ سلیمان بن محمد سلیمان | مفتیان | سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب |