03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
کمپنی کی جانب سے انشورنس پر مبنی الاؤنسز سے فائدہ اٹھانے کا حکم
84753سود اور جوے کے مسائلانشورنس کے احکام

سوال

اگر کوئی بندہ کسی کمپنی میں کام کررہا ہو اور وہاں پر تنخواہ کے علاوہ انشورنس پر مبنی کچھ الاؤنسز ہوں،مثلا ،لیکن رقم کی صورت میں نہ ملتے ہوں،البتہ سروس استعمال کی جاسکتی ہو،تو انشورنس کی بنیاد پر کسی سروس کا استعمال کرنا کیسا ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

مروجہ کنونشنل انشورنس چونکہ جوااورسودہونےکی وجہ سےحرام ہے،اس لیےمتعلقہ کمپنی کاانشورنس کمپنی سےمعاہدہ ایک سودی معاہدہ ہونےاورحرام کاروبارمیں معاونت کی وجہ سےجائزنہیں ہے۔

رہی بات کہ کمپنی نےاگرمعاہدہ کرلیاتوکمپنی کےملازمین کےلیےاس سےفائدہ اٹھاناجائزہوگایانہیں،تواس کی ممکنہ طورپرتین صورتیں ہوسکتی ہیں:

۱۔کمپنی کےملازمین کسی کلینک یاہسپتال سےعلاج کرواتےہیں اورعلاج کےاخراجات کلینک یاہسپتال والےبراہ راست انشورنس کمپنی سےوصول کرتےہیں،اس صورت میں اگرچہ کمپنی کوانشورنس کےمعاملےکاگناہ ہوگا،لیکن ملازم کےلیےعلاج کروانا جائز ہوگا،کیونکہ علاج معالجے کے اخراجات کی ذمہ داری ملازم کی متعلقہ کمپنی پرہے،پھروہ بلوں کی ادائیگی کےلیےجوطریق کاراختیارکرےاس کی ذمہ داروہ خود ہے۔     

۲۔دوسری صورت یہ ہےکہ کمپنی کےملازمین کسی کلینک یاہسپتال سےعلاج کراتےہیں اورکلینک یاہسپتال والےعلاج کےاخراجات ملازم کی متعلقہ کمپنی سےوصول کرتےہیں اورپھرکمپنی اس علاج کےاخراجات انشورنس کمپنی سےوصول کرلیتی ہے،یہ صورت بھی متعلقہ کمپنی کےلیےتوجائزنہیں،مگرملازم کےلیےاس طرح علاج کراناجائزہے۔

۳۔تیسری صورت یہ ہےکہ ملازم کلینک یاہسپتال کی فیس خوداداکرے اور پھر اس بل کی رقم خودجاکرانشورنس کمپنی سےوصول کرے،اس صورت میں  اس کے لئے جمع کئے گئے پریمیم کے بقدر رقم کی وصولی کی گنجائش ہوگی،اس سے زیادہ کی نہیں،لہذا اگر ملازم کو یہ معلوم ہوسکے کہ متعلقہ کمپنی نےانشورنس کمپنی کوجتناپریمیم ادا کیاہے،ابھی تک اتنی رقم اس کےملازمین نےوصول نہیں کی توجتناپریمیم انشورنس کمپنی کےپاس باقی ہو اس حدتک رقم وصول کرناجائزہوگا۔

مذکورہ بالاتفصیل کےمطابق صورت مسئولہ میں ملازمین کاچونکہ اس معاملے(سودی معاہدے)سےبراہ راست کوئی تعلق نہیں ہوتا،اس لیےکمپنی کی طرف سےمیڈیکل کی سہولت سےفائدہ اٹھاناجائزہے،ہاں اگرکسی کمپنی کےملازمین کوخودبراہ راسٹ انشورنس کمپنی سےرقم لیناپڑتی ہوتوپھریہ ضروری ہوگاکہ متعلقہ کمپنی نےجتناپریمیم ادا کیاہے،صرف اسی کےبقدرفائدہ اٹھایاجائے،اس سےزیادہ جائزنہیں ہوگا۔

نیزملازمین کواس بات کی کوشش کرنی چاہیےکہ وہ کمپنی کےفنانس ڈپارٹمنٹ اوردیگراس شعبےسےمنسلک افرادکواس بات کا مشورہ دیتےرہیں کہ اس قسم کےالاؤنسز وغیرہ جوکمپنی جاری کرے،ان میں اس بات کا لحاظ رکھا جائے کہ وہ ہمارےدین اورشریعت کے مطابق ہوں۔

حوالہ جات

"الأشباه والنظائر " (ص: 247):

"الحرمة تتعدى في الأموال مع العلم بها، إلا في حق الوارث فإن مال مورثه حلال له وإن علم بحرمته منه، من الخانية، وقيده في الظهيرية بأن لا يعلم أرباب الأموال".

"الدر المختار " (5/ 98):

"وفي حظر الأشباه: الحرمة تتعدد  مع العلم بها إلا في حق الوارث، وقيده في الظهيرية بأن لا يعلم أرباب الأموال".

قال العلامة ابن عابدین رحمہ ﷲ: "(قوله إلا في حق الوارث إلخ) أي فإنه إذا علم أن كسب مورثه حرام يحل له، لكن إذا علم المالك بعينه فلا شك في حرمته ووجوب رده عليه، وهذا معنى قوله وقيده في الظهيرية إلخ، وفي منية المفتي: مات رجل ويعلم الوارث أن أباه كان يكسب من حيث لا يحل ولكن لا يعلم الطلب بعينه ليرد عليه حل له الإرث والأفضل أن يتورع ويتصدق بنية خصماء أبيه. اهـ وكذا لا يحل إذا علم عين الغصب مثلا وإن لم يعلم مالكه، لما في البزازية أخذه مورثه رشوة أو ظلما، إن علم ذلك بعينه لا يحل له أخذه، وإلا فله أخذه حكما أما في الديانة فيتصدق به بنية إرضاء الخصماء اهـ. والحاصل أنه إن علم أرباب الأموال وجب رده عليهم، وإلا فإن علم عين الحرام لا يحل له ويتصدق به بنية صاحبه، وإن كان مالا مختلطا مجتمعا من الحرام ولا يعلم أربابه ولا شيئا منه بعينه حل له حكما، والأحسن ديانة التنزه عنه ففي الذخيرة: سئل الفقيه أبو جعفر عمن اكتسب ماله من أمراء السلطان ومن الغرامات المحرمات وغير ذلك هل يحل لمن عرف ذلك أن يأكل من طعامه؟ قال أحب إلي في دينه أن لا يأكل ويسعه حكما إن لم يكن ذلك الطعام غصبا أو رشوة وفي الخانية: امرأة زوجها في أرض الجور، وإن أكلت من طعامه ولم يكن عين ذلك الطعام غصبا فهي في سعة من أكله وكذا لو اشترى طعاما أو كسوة من مال أصله ليس بطيب فهي في سعة من تناوله والإثم على الزوج. اهـ ".

"الفتاوى الهندية "(5/ 342):

"قال الفقيه أبو الليث - رحمه ﷲتعالى - اختلف الناس في أخذ الجائزة من السلطان قال بعضهم يجوز ما لم يعلم أنه يعطيه من حرام قال محمد - رحمه الله تعالى - وبه نأخذ ما لم نعرف شيئا حراما بعينه، وهو قول أبي حنيفة - رحمه ﷲ تعالى - وأصحابه، كذا في الظهيرية".

محمد طارق

دارالافتاءجامعۃالرشید

25/صفر 1446ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد طارق غرفی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب