03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
دو بیویاں اوردو بیٹوں کے درمیان وراثت کی تقسیم
84863میراث کے مسائلمناسخہ کے احکام

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں: ایک دوست وفات پا گیا ہے۔ اس کی دو بیویاں ہیں،ایک کے دو بیٹے ہیں اور دوسری کی اس شوہر سے  کوئی اولاد نہیں ،البتہ اس  دوسری کی ایک بیٹی (ربیبہ)سابقہ شوہر سے ہے۔ متوفی کا ایک سوتیلا  بھائی اور ایک  حقیقی بھائی ہے۔

 سوال یہ ہے کہ بیویوں کو  وراثت میں سے کتنا حصہ ملے گا؟کیا ربیبہ کو بھی کچھ ملے گا؟  کیا سوتیلے بھائی کو وراثت میں سے حصہ ملے گا؟ اور حقیقی بھائی کو کتنا حصہ ملے گا؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

مرحوم نے انتقال کے وقت اپنی ملکیت میں جو کچھ چھوڑ اہے،وہ سب ان کا ترکہ ہے اور ترکہ میں سے سب سے پہلے مرحوم کی تجہیزوتکفین کی جائے گی ۔اس کے بعد مرحوم کے ذمہ اگر کسی کا قرض ہو تو وہ اداکیاجائےگا۔اس کے بعد اگر مرحوم نے کسی غیر وارث کے حق میں جائز وصیت کی ہوتواسے اس کے ترکہ کے ایک تہائی سے اداکیا جائےگا۔اس کے بعد جو ترکہ باقی بچے ،وہ موجود ورثہ کے درمیان تقسیم ہوگا۔

صورت مسئولہ میں ربیبہ،مرحوم کے سوتیلے بھائی اورحقیقی بھائی تینوں کوکچھ نہیں ملے گا، کیونکہ مرحوم کے مذکر اولاد کی موجودگی میں مرحوم کے ہر طرح کے بھائی محروم ہوتے ہیں۔ بیویوں اور  بیٹوں کے درمیان ترکہ درجہ ذیل طریقے سے تقسیم یوگا:

کل ترکہ کے 16 حصےکر لیے جائیں اس میں سے ایک ،ایک حصہ ہر ایک بیوی کو باقی سات سات حصے ہر ایک بیٹے کو دے دیے جائیں ۔

فیصدی لحاظ سے مرحوم کی ہر بیوی کو 6.25%اور ہربیٹے کو43.75% حصہ ملے گا۔

حوالہ جات

قال اللہ تبارك وتعالی:ﵟوَلَهُنَّ ٱلرُّبُعُ مِمَّا تَرَكۡتُمۡ إِن لَّمۡ يَكُن لَّكُمۡ وَلَدٞۚ فَإِن كَانَ لَكُمۡ وَلَدٞ فَلَهُنَّ ٱلثُّمُنُ مِمَّا تَرَكۡتُمۚ مِّنۢ بَعۡدِ وَصِيَّةٖ تُوصُونَ بِهَآ أَوۡ دَيۡنٖۗﵞ [النساء: 12].

 قال العلامۃالسرخسی رحمہ اللہ تعالی : فأقرب العصبات الابن، ثم ابن الابن، وإن سفل، ثم الأب، ثم الجد أب الأب، وإن علا، ثم الأخ لأب وأم، ثم الأخ لأب. ( المبسوط للسرخسي:29/174(

قال العلامۃ علاءالدین الحصکفي رحمہ اللہ تعالی :ثم العصبات بأنفسهم أربعة أصناف :جزء الميت ،ثم أصله ثم جزء أبيه، ثم جزء جده (ويقدم الأقرب فالأقرب منهم) بهذا الترتيب ،فيقدم جزء الميت (كالابن ثم ابنه وإن سفل، ثم أصله الأب ويكون مع البنت) بأكثر (عصبة وذا سهم) كما مر (ثم الجد الصحيح) وهو أبو الأب (وإن علا) (ثم جزء أبيه الأخ) لأبوين (ثم) لأب ثم (ابنه) لأبوين ثم لأب (وإن سفل)   ). الدرالمختار:6/ 774(

وفي الفتاوی التاتارخانیۃ:أولی العصبات بالمیراث الابن،ثم ابن الابن وإن سفل،ثم الأب،ثم الجدأب الأب وإن علا،ثم الأخ لأب،ثم ابن الأخ لأب وأم،وإن سفلوا علی ھذا الترتیب.(الفتاوی التاتارخانیۃ:(263/20

قال العلامۃابن نجیم  رحمه الله  تعالی:(وحجبن بالابن وابنه، وإن سفل وبالأب وبالجد): أي الأخوات كلهن يحجبن بهؤلاء المذكورين وهم الابن وابن الابن، وإن سفل والأب والجد، وإن علا، وكذا الإخوة يحجبون بهم؛ لأن ميراثهم مشروط بالكلالة. (البحر الرائق:8/ 566)

شمس اللہ         

دارالافتاء جامعۃالرشید، کراچی

28/صفر1146ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

شمس اللہ بن محمد گلاب

مفتیان

فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب