84844 | میراث کے مسائل | میراث کے متفرق مسائل |
سوال
میرے دادا کی کل اولاد سات بیٹے اور تین بیٹیاں تھیں ، ان کے دو نکاح تھے، ایک بیوی سے تین بیٹے تھے اور دوسری بیوی سےچار بیٹے اور تین بیٹیاں تھیں، ان کی وفات کے وقت ان کے کل ورثہ 6 بیٹے اور تین بیٹیاں، دو بیگمات تھیں،کیونکہ ایک بیٹا ان کی زندگی میں قتل ہو گیا تھا۔ان کی وفات کے بعد ان کی میراث شریعت کو ترک کرکے اپنی منشاء کے مطابق صرف بیٹوں کے درمیان تقسیم کی گئی تھی اور قتل ہو جانے والی بھائی کا حصہ ان کی اولاد کو دے دیا گیا تھا اس طرح یہ جائیداد سات بھائیوں کے درمیان تقسیم ہوگئی، جو کہ غیر شرعی عمل تھا۔
مزید تفصیل: ان چھ بھائیوں میں سے دونے نکاح نہیں کیا تھا، ان میں سے ایک کے انتقال کے بعد اس کی جائیداد اس کے ماں شریک ایک بھائی نے لے لی اور اس کے شرعی ورثاء کے درمیان تقسیم نہیں کی گئی اور دوسرے بھائی کے انتقال کے بعد اس کی جائیداد کا آدھا حصہ اس کے ماں شریک بھائی نے لیا اور دوسرا آدھا حصہ باقی چار بھائیوں کے درمیان تقسیم کیا گیا۔
اب کچھ جائیداد اور میرے دادا کے نام پر نکل آئی ہے۔ اب اس کی تقسیم ہم شریعت کی روشنی میں کرنا چاہتے ہیں ، تا کہ کسی کو اس کا شرعی حق مل سکے ،پہلی تقسیم جہالت کی وجہ سے غیر شرعی ہوگئی تھی ، صورتحال یہ ہےکہ خاندان میں اختلاف اس حد تک ہے ایک دوسرے کے قتل تک آمادہ ہیں ،لیکن اگر تقسیم شرعی ہو جائے تو قتل وغارت کا دروازہ بند ہو جائے۔
اب اس میراث کے شرعی ورثہ کا تعین کر دیا جائے تو آپ کی عین نوازش ہوگی۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
دادا کے ورثہ میں دو بیویاں ،6بیٹے اور تین بیٹیاں ہیں ،جس بیٹے کا والد کی زندگی میں انتقال ہوچکا تھا،اس کاحصہ نہیں ہے،البتہ اگر دیگر ورثہ اپنی مرضی سے ان کو کچھ دینا چاہتے ہیں تو دے سکتے ہیں، اسی طرح بعد میں جن بیٹوں کا انتقال ہوا ہے ،ان کاحصہ متعین کرکے ان کے انتقال کے وقت جو ورثہ موجود تھے،ان میں تقسیم ہوگا۔
دادا کی میراث کی تقسیم کا طریقہ کاریہ ہےکہ مرحوم نے بوقت ِانتقال اپنی ملکیت میں جو کچھ منقولہ وغیر منقولہ مال،جائیداد،سونا ،چاندی،نقدی اور ہر قسم کا سامان چھوڑا ہےاوراسی طرح مرحوم کا وہ قرض جو کسی کے ذمہ واجب ہو، يہ سب مرحومہ کا ترکہ ہے،اس میں سب سے پہلے کفن دفن کے معتدل اخراجات(اگر کسی نے اپنی طرف سے بطور احسان نہ کیے ہوں تو) نکالے جائیں،پھر اگر میت پر قرضہ ہو تو وہ ادا کیا جائے،اگر انہوں نے وارث کے علاوہ کسی کے لیے وصیت کی ہوتو ایک تہائی سے وہ ادا کی جائے،اس کے بعد بقیہ مال ورثہ میں تقسیم کیاجائے، تقسیم کا طریقہ کار یہ ہے:۔
میراث کے 240 حصے بنائے جائیں ،جن میں سے30 حصےبیویوں کے ہیں،ہر بیوی کو 15 حصے ملیں گے۔ 168 حصے6 بیٹوں کو دیے جائیں،ہر بیٹے کو28حصے ملیں گے،اور42حصےبیٹیوں کو دیے جائیں،ہر بیٹی کو 14حصے ملیں گے ۔
نمبر |
وارث |
عددی حصہ |
فیصدی حصہ |
1 |
بیوی |
15 |
6.25 |
2 |
بیوی |
15 |
6.25 |
3 |
بیٹا |
28 |
11.66666 |
4 |
بیٹا |
28 |
11.66666 |
5 |
بیٹا |
28 |
11.66666 |
6 |
بیٹا |
28 |
11.66666 |
7 |
بیٹا |
28 |
11.66666 |
8 |
بیٹا |
28 |
11.66666 |
9 |
بیٹی |
14 |
5.83333 |
10 |
بیٹی |
14 |
5.83333 |
11 |
بیٹی |
14 |
5.83333 |
حوالہ جات
سید نوید اللہ
دارالافتاء،جامعۃ الرشید
05/ ربیع الاول 1446ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | سید نوید اللہ | مفتیان | سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب |