84862 | طلاق کے احکام | تحریری طلاق دینے کا بیان |
سوال
چند روز قبل میں نے اپنی بیوی کو طلاق دینے کا ارادہ کیا اور تاریخ اور وقت کے بارے میں نے یہ سوچا کے پہلے وکیل سے بات کر لوں، پھر اس کے بعد کوئی عمل کروں گا، اس سلسلے میں ایک وکیل کی مدد حاصل کی جو میرا دوست بھی ہے،میں نے اس دوست وکیل کے دفتر جا کر اس کو تمام تفصیل سے آگاہ کیا، جس کے بعد وہ بولا کہ وہ آج کل کافی مصروف ہے،اس لئے میں اپنا طلاق نامہ خود لکھ لوں ،کیونکہ وہ یہ بات جانتا ہے میں کمپیوٹر کی فیلڈ سے تعلق رکھتا ہو ں اور اردو، انگریزی تحریر ٹائپ کرنا بخوبی جانتا ہوں، اس سلسلے میں اس نے قانونی طریقے سے طلاق نامہ تحریر کرنےکے لئے سادہ کاغذ پر مجھے ایک مثال کے طور پر سمجھادیا اور کہا کہ اس طریقے سے طلاق نامہ کمپیوٹر پر ٹائپ کر کے مجھے پہلے دکھاؤ، پھر فائنل پرنٹ اسٹامپ پیپر پر نکال کر دستخط کردینا۔
میں نے اپنے دفتر پہنچ کر گوگل کی مدد سے طلاق نامے کا فارمیٹ ڈاؤنلوڈ کیا اور اس کا اردو ترجمہ گوگل کے ذریعے کر لیا،طلاق نامے میں قانونی الفاظ پہلے سے تحریر تھے اور نام، پتہ، شناختی کارڈ نمبر وغیرہ کی جگہ خالی تھی، میں نے اس تحریر کے پہلے پیراگراف پر اپنا اور بیوی کا نام ٹائپ کیا اور پھرآگے جہاں بھی ان کی دوبارہ ضرورت پڑی، پہلے پیراگراف سے کاپی پیسٹ کیا اور جب بھی تحریر پڑھی دل میں پڑھی،ز بان سے ادا نہیں کی اور نہ ہی میرے کانوں نے سنی، خصوصاً وہ سطر جس میں طلاق کا واضح جملہ ہے، جیسا کہ پیراگراف نمبر ۳ کی آخری سطر پر لکھا ہے۔(طلاق نامہ منسلک ہے۔)
بہرحال اس طلاق نامہ کی ٹائپنگ کے دوران میرے بھائی جو عالم دین ہے ،سے بھی دینی و دنیاوی مسائل پر زبانی بات ہوئی تو انہوں مشورہ دیا کے طلاق کے لفظ کے ساتھ" بائن " کا لفظ استعمال کرنے سے دینی و قانونی پیچیدگیوں سے بچا جاسکتا ہے تو میں نے اوپر دی گئی سطر میں لفظ "بائن" کا اضافہ کر دیا، آپ کی آسانی کے لئے اور اپنی بات واضح کرنے کے لئے ذیل میں مزید تفصیل درج ہے:
1. میں نے سب سے پہلے (طلاق دیتا ہوں) لکھا۔
2. پھر اس میں" اول" کا لفظ جوڑ دیا ،یعنی (اول طلاق دیتا ہوں)
3. پھر اس سطر میں مزید اضافہ کرتے ہوئے" رجعی" کا لفظ جوڑا (اول طلاق رجعی دیتا ہوں)
4. پھر اس مقام پر بھائی سے زبانی بات کرنے کے بعد مکمل جملہ یوں بنا :(اول طلاق بائن دیتا ہوں)
واضح رہے کہ میں نے اس سطر میں اپنا نام کاپی پیسٹ کیا ہے اور صرف الفاظ" اول ، رجعی اور بائن" ٹائپ کئے ہیں،باقی سب پہلے سے لکھا ہوا تھا، یوں میں نے فائل مکمل کر کے پہلے وکیل دوست کو پرنٹ نکال کر چیک کروایا اور پھر دوسرے دن بھائی کو واٹس ایپ پر فائل ارسال کی ،تاکہ دینی نقطہ نظر بھی معلوم کر لیا جائے، جس کے جواب میں بھائی نے مجھے سے دریافت کیا کے کیا یہ فائل آپ نے خود لکھی ہے؟ میں نے ہاں میں جواب دیا اور یوں بھائی کے بقول جس دن آپ نے یہ سطر ٹائپ کی تھی اس دن ہی طلاق واقع ہو گئی تھی۔
مذکورہ تمہید کے بعد میرا سوال یہ ہے کہ مذکورہ بالا تفصیل کے مطابق کیا یہ طلاق واقع ہو چکی ہے یا نہیں ؟ اگر ہاں تو کونسی اور کتنی ؟
واضح رہے کہ یہ معاملہ صرف ٹائیپنگ کرنے کی حد تک ہی ہے، تاکہ قانونی دستاویز قانون کے مطابق تیار ہو سکیں، اس میں طلاق نافذ کرنے کی کوئی نیت نہیں تھی۔
تنقیح:سائل نے بتایا ہے کہ اس نے طلاق نامے پر نہ دستخط کئے ہیں اور نہ بیوی کا اس کے متعلق بتایا ہے،البتہ بیوی کی جانب سے طلاق کے مطالبے پر اس نے یہ طلاق نامہ تیار کیا ہے۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
اگرچہ فقہاء کرام کی عبارات میں تحریر کے مرسومہ ہونے کے لئے صرف مصدر اور معنون (یعنی وہ تحریر جس پر طلاق کا عنوان ہو اور بیوی کو مخاطب کرکے،مثلا فلانہ!تجھے طلاق یا اس کے نام لکھی جائے،مثلا فلاں کی طرف سے فلانة کی طرف،یا میری بیوی فلانہ کے نام وغیرہ)ہونے کی شرط مذکور ہے،لیکن آج کل کے عرف میں دستخط کے بغیر کسی تحریر کو قبول نہیں کیا جاتا،اس لئے جب تک کسی تحریرپر دستخط نہیں ہوں گے وہ کتابتِ مرسومہ کے تحت داخل نہیں ہوگی اور کتابتِ غیر مرسومہ سے نیت یا وقوعِ طلاق کے ظاہری قرینے کے بغیر طلاق واقع نہیں ہوتی،کیونکہ کتابتِ غیر مرسومہ کا حکم طلاق کے کنایہ الفاظ جیسا ہے۔
مذکورہ صورت میں اگرچہ آپ نے اس طلاق نامہ پر دستخط نہیں کئے اور نہ آپ کی فوری طلاق واقع کرنے کی نیت تھی،لیکن چونکہ آپ نے یہ طلاق نامہ بیوی کی جانب سے طلاق کے مطالبے پر تیار کیا ہے،اس لئے اس قرینے کی وجہ سے بغیر نیت کے بھی ایک بائن طلاق واقع ہوچکی ہے،جس کا حکم یہ ہے کہ اگر آپ دونوں میاں بیوی دوبارہ رشتہ ازدواج میں منسلک ہونا چاہتے ہیں تو اس کے لئے نئے مہر کے ساتھ نیا نکاح کرنا پڑے گا اور تجدید نکاح کے بعد آپ کو فقط دو طلاقوں کا اختیار حاصل ہوگا۔
حوالہ جات
"بدائع الصنائع " (3/ 100):
وكذا التكلم بالطلاق ليس بشرط فيقع الطلاق بالكتابة المستبينة وبالإشارة المفهومة من الأخرس لأن الكتابة المستبينة تقوم مقام اللفظ والإشارة المفهومة تقوم مقام العبارة.
"الدر المختار " (3/ 246):
"كتب الطلاق، وإن مستبينا على نحو لوح وقع إن نوى، وقيل مطلقا، ولو على نحو الماء فلا مطلقا. ولو كتب على وجه الرسالة والخطاب، كأن يكتب يا فلانة: إذا أتاك كتابي هذا فأنت طالق طلقت بوصول الكتاب جوهرة".
قال ابن عابدین رحمہ اللہ: "(قوله كتب الطلاق إلخ) قال في الهندية: الكتابة على نوعين: مرسومة وغير مرسومة، ونعني بالمرسومة أن يكون مصدرا ومعنونا مثل ما يكتب إلى الغائب. وغير المرسومة أن لا يكون مصدرا ومعنونا، وهو على وجهين: مستبينة وغير مستبينة، فالمستبينة ما يكتب على الصحيفة والحائط والأرض على وجه يمكن فهمه وقراءته. وغير المستبينة ما يكتب على الهواء والماء وشيء لا يمكنه فهمه وقراءته. ففي غير المستبينة لا يقع الطلاق وإن نوى، وإن كانت مستبينة لكنها غير مرسومة إن نوى الطلاق وإلا لا، وإن كانت مرسومة يقع الطلاق نوى أو لم ينو ثم المرسومة لا تخلو إما أن أرسل الطلاق بأن كتب: أما بعد فأنت طالق، فكما كتب هذا يقع الطلاق وتلزمها العدة من وقت الكتابة".
"الفقه الإسلامي وأدلته للزحيلي "(4/ 2941):
"رابعاً ـ التعاقد بالكتابة: يصح التعاقد بالكتابة بين طرفين، ناطقين أو عاجزين عن النطق، حاضرين في مجلس واحد، أو غائبين، وبأي لغة يفهمها المتعاقدان، بشرط أن تكون الكتابة مستبينة (بأن تبقى صورتها بعد الانتهاء منها) ومرسومة (مسطرة بالطريقة المعتادة بين الناس بذكر المرسل إليه وتوقيع المرسل)، فإذا كانت غير مستبينة كالرقم أوالكتابة على الماء أو في الهواء، أو غير مرسومة كالرسالة الخالية من التوقيع مثلاً، لم ينعقد بها العقد، وعليه نصت القاعدة الفقهية: (الكتاب كالخطاب) (م 96 مجلة) وهذا رأي الحنفية والمالكية".
"درر الحكام في شرح مجلة الأحكام" (1/ 69):
"الكتاب كالخطاب".
هذه المادة هي نفس قاعدة (الكتاب كالخطاب) المذكورة في الأشباه. والمقصود فيها هو أنه كما يجوز لاثنين أن يعقد بينهما مشافهة عقد بيع أو إجارة أو كفالة أو حوالة أو رهن أو ما إلى ذلك من العقود، يجوز لهما عقد ذلك مكاتبة أيضا. والكتب على ثلاثة أنواع: (1) المستبينة المرسومة (2) المستبينة غير المرسومة (3) غير المستبينة.
فالمستبينة المرسومة هي أن يكون الكتاب منها مما يقرأ خطه، ويكون وفقا لعادات الناس ورسومهم ومعنونا. وقد كان من المتعارف في زمن صاحب (مجمع الأنهر) أن يكتب الكتاب على ورق ويختم أعلاه، وكل كتاب لا يكون على هذه الصورة مكتوبا على ورق ومختوما لا يعد مرسوما، أما في زماننا فالكتاب يعد مرسوما بالختم والتوقيع على حد سواء، وذلك بمقتضى المادة (1610) ولكن إذا كتب كتاب في زماننا على غير الورق مثلا ينظر إذا كان المعتاد أن تكتب الكتب على غير الورق يعتبر ذلك الكتاب، كما لو كتب على ورق وإلا فلا. والحاصل أن كل كتاب يحرر على الوجه المتعارف من الناس حجة على كاتبه كالنطق باللسان.
والمستبينة غير المرسومة: هي أن يكون الكتاب مكتوبا على غير ما هو متعارف بين الناس كأن يكون مكتوبا على حائط أو ورق شجر أو بلاطة مثلا، فالكتاب الذي يكتب على هذه الصورة لغو ولا يعتبر حجة في حق صاحبه إلا إن نوى أو أشهد على نفسه حين الكتابة، والإملاء يقوم مقام الإشهاد أيضا؛ لأن الكتابات التي تكون على هذه الصورة، كما أنها قد تكون بقصد بيان الحقيقة تكون في الغالب بقصد التجربة أو عبثا، فتحتاج إلى ما يؤيدها كالنية أو الإشهاد أو الإملاء حتى تعتبر حجة بحق كاتبها".
"الدر المختار " (3/ 296):
"باب الكنايات (كنايته) عند الفقهاء (ما لم يوضع له) أي الطلاق (واحتمله) وغيره (ف) الكنايات (لا تطلق بها) قضاء (إلا بنية أو دلالة الحال) وهي حالة مذاكرة الطلاق أو الغضب".
"الدر المختار " (3/ 409):
"(وينكح مبانته بما دون الثلاث في العدة وبعدها بالإجماع) ومنع غيره فيها لاشتباه النسب".
محمد طارق
دارالافتاءجامعۃالرشید
05/ربیع الاول1446ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | محمد طارق غرفی | مفتیان | مفتی محمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب / سعید احمد حسن صاحب |