03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
آڑھتی کا زمیندار کو اس کا مال کمیشن پر فروخت کرنے کی شرط کے ساتھ قرض دینا
84870جائز و ناجائزامور کا بیانخریدو فروخت اور کمائی کے متفرق مسائل

سوال

میرے ایک دوست کی کراچی سبزی منڈی میں کمیشن کی دکان ہے،جس میں وہ سبزیاں وغیرہ بیچتا ہے اس طور پر کہ جس زمیندار کا مال وہ فروخت کرتا ہے،اس کی آمدن میں سے دس فیصد وہ بطور کمیشن لیتا ہے۔

کمیشن ایجنٹ اور زمیندار کے تعلق کی نوعیت یہ ہوتی ہے کہ ان کے درمیان یہ طے ہوتا ہے کہ زمیندار کو فصل اگانے کے لئے جتنا خرچہ چاہیے ایجنٹ اسے ان کے اخراجات دینے کا پابند ہوتا ہے،لیکن اس شرط پر کہ زمیندار اپنا یہ سارا مال اسی کی دکان پر فروخت کرنے کے لئے لائے گا،تاکہ وہ اس سے اپنا دیا ہوا خرچہ یعنی قرض وصول کرے اور آمدن میں سے بھی دس فیصد اسے مل جائے،اس تمہید کی روشنی میں آپ سے پوچھنا ہے کہ :

1۔کیا کمیشن ایجنٹ کا اس شرط پر خرچہ دینا یا قرض دینا جائز ہے کہ زمیندار اپنا مال اسی کی دکان پر لائے گا؟

2۔زمیندار اور کمیشن ایجنٹ کے درمیان ہونے والے معاملےکی تطبیق کیا ہوگی؟

3۔اگر زمیندار بغیر عذر کے اس ایجنٹ کی دکان پر مال نہ اتارے تو کیا اسے گناہ ہوگا؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

مذکورہ صورت میں آڑھتی کازمیندار کو اس شرط پر قرض فراہم کرنا جائز نہیں کہ وہ  تیار ہونے والی فصل کو اسی کے پاس لے کر آئے گا اور وہ اسے فروخت کرکے اپنا قرضہ بھی وصول کرے گا اور دس فیصد کمیشن بھی،اس لئے زمیندار کے ذمے اس شرط کی پابندی لازم نہیں،اس شرط کی جگہ زمیندار کو کھلی آزادی دینا ضروری ہے کہ جب مال تیار ہوجائے تو زمینداراس مال کو اپنی مرضی سے (چاہے تو) اسی آڑھتی کے ذریعہ مارکیٹ ویلیو( منڈی میں رائج کمیشن ریٹ )  پر فروخت کرواتا رہے(چاہے تو کسی اور سے فروخت کروائے)اور آڑھتی بھی قرض کی وجہ سے عام رائج کمیشن سےزیادہ کمیشن لینے کا مطالبہ نہ کرے ، اگر اس طرح اس معاملے کو شرط سے خالی رکھا جائے اور زمیندار کو کھلی اجازت دی جائے تو ایسی صورت میں ان دونوں کے درمیان قرض کا لین دین درست اور جائز ہوگا ۔

مذکورہ  مسئلے کا جو ناجائز پہلو ہے ، اس کی ایک اورجائز متبادل صورت یہ بن سکتی ہے کہ آڑھتی اپنے متعلقہ زمینداروں کو یہ رقم قرض کے بجائے بیع سلم (چیز کی قیمت نقد اور چیز کی وصولی ادھار)  کے طور پر دے دیں اور چیز کی قیمت اتنی لگائیں کہ اس میں زمیندار کو متوقع نفع بھی شامل ہو ،پھر جب وہ مال تیار کرکے لائیں تو اپنے خرید کردہ مال  کے  طور پر اسے وصول کرے، پھر اسے فروخت کرکے نفع کمائیں ، ایسی صورت میں زمیندار کی ضرورت بھی پوری ہوجاتی ہے کہ جسے کاشت کاری کے لیے بڑی رقم لگانی پڑتی ہے اور آڑھتی کی بھی ضرورت پوری ہوجاتی ہے کہ وہ اس مال کو  منڈی میں اچھے دام میں فروخت کرکے نفع کما سکتا ہے ۔

البتہ بیع سلم کرتے وقت اس کی تمام  شرائط کی پابندی ضروری ہے، کسی ایک شرط کی خلاف ورزی کی صورت میں معاملہ فاسد ہوجاتا ہے، بیع سلم کی شرائط درج ذیل ہیں    :

1۔ بیچی جانے والی  چیز ان اشیاء میں سے ہو جن میں بیعِ سلم ہو سکتی ہو، مثلا  گندم ، چاول، فروٹ جیسی اشیاء  میں بیع سلم ہو سکتی ہے۔

2۔  بیچی جانے والی  چیز  کی جنس معلوم ہو، مثلا مذکورہ بالا مسئلہ میں سبزی  ایک معلوم جنس ہے۔

3۔ بیچی جانے والی  چیز (مثلا مذکورہ  مسئلہ  میں سبزی ) کی نوع (قسم) اور صفت (کوالٹی) اس قدر وضاحت کے ساتھ بیان کردی جائے کہ بعد میں اس کے بارے میں فریقین (خریدار  اور فروخت کنندہ) کےدرمیان کسی قسم کے جھگڑے  کا امکان باقی  نہ رہے۔

4۔ بیچی جانے والی  چیز کی مقدار واضح طور پر متعین ہو اورخریدی جانے والی چیز کی پوری قیمت پر خرید و فروخت کی مجلس میں قبضہ ہو۔

5۔  چیز کی حوالگی کا وقت اور جگہ دونوں معلوم ہوں ، مثلا دو ماہ بعد جب سبزی تیار ہوجائے تو منڈی ہی میں لاکر آڑھتی (خریدار) کے حوالہ کرے گا۔

6۔ بیچی جانے والی چیز عقد کے وقت سے لے کر  حوالگی کی تاریخ  تک مارکیٹ میں دستیاب ہو ، اس دوران وہ چیز ختم نہ ہو۔

حوالہ جات

"الدر المختار " (5/ 165):

"(و) فيها (القرض لا يتعلق بالجائز من الشروط فالفاسد منها لا يبطله ولكنه يلغو شرط رد شيء آخر فلو استقرض الدراهم المكسورة على أن يؤدي صحيحا كان باطلا) وكذا لو أقرضه طعاما بشرط رده في مكان آخر (وكان عليه مثل ما قبض) فإن قضاه أجود بلا شرط جاز".

"الدر المختار " (5/ 167):

" وفيها شراء الشيء اليسير بثمن غال لحاجة القرض يجوز ويكره وأقره المصنف".

قال العلامة ابن عابدین رحمہ اللہ :" (قوله: يجوز ويكره) أي يصح مع الكراهة وهذا لو الشراء بعد القرض لما في الذخيرة، وإن لم يكن النفع مشروطا في القرض، ولكن اشترى المستقرض من المقرض بعد القرض متاعا بثمن غال، فعلى قول الكرخي لا بأس به وقال الخصاف: ما أحب له ذلك وذكر الحلواني أنه حرام، لأنه يقول لو لم أكن اشتريته منه طالبني بالقرض في الحال، ومحمد لم ير بذلك بأسا وقال خواهر زاده: ما نقل عن السلف محمول على ما إذا كانت المنفعة مشروطة وذلك مكروه بلا خلاف. وما ذكره محمد محمول على ما إذا كانت غير مشروطة وذلك غير مكروه بلا خلاف".

"رد المحتار" (6/ 63):

"مطلب أسكن المقرض في داره يجب أجر المثل.

وفي الخانية: رجل استقرض دراهم وأسكن المقرض في داره، قالوا: يجب أجر المثل على المقرض؛ لأن المستقرض إنما أسكنه في داره عوضا عن منفعة القرض لا مجانا وكذا لو أخذ المقرض من المستقرض حمارا ليستعمله إلى أن يرد عليه الدراهم اهـ وهذه كثيرة الوقوع، وﷲ تعالى  أعلم".

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (5/ 214)

(وشرطه) أي شروط صحته التي تذكر في العقد سبعة (بيان جنس) كبر أو تمر (و) بيان (نوع) كمسقي أو بعلي (وصفة) كجيد أو رديء (وقدر) ككذا كيلا لا ينقبض ولا ينبسط (وأجل وأقله) في السلم (شهر) به يفتي .....

 (و) بيان (قدر رأس المال) إن تعلق العقد بمقداره كما (في مكيل وموزون وعددي غير متفاوت) واكتفيا بالإشارة كما في مذروع وحيوان قلنا ربما لا يقدر على تحصيل المسلم فيه فيحتاج إلى رد رأس المال ابن كمال: وقد ينفق بعضه ثم يجد باقيه معيبا فيرده ولا يستبدله رب السلم في مجلس الرد فينفسخ العقد في المردود ويبقى في غيره فتلزم جهالة المسلم فيه فيما بقي ابن مالك فوجب بيانه

 (و) السابع بيان (مكان الإيفاء) للمسلم فيه (فيما له حمل) أو مؤنة".

"رد المحتار" (6/ 63):

"مطلب في أجرة الدلال [تتمة]

قال في التتارخانية: وفي الدلال والسمسار يجب أجر المثل، وما تواضعوا عليه أن في كل عشرة دنانير كذا فذاك حرام عليهم. وفي الحاوي: سئل محمد بن سلمة عن أجرة السمسار، فقال: أرجو أنه لا بأس به وإن كان في الأصل فاسدا لكثرة التعامل وكثير من هذا غير جائز، فجوزوه لحاجة الناس إليه كدخول الحمام وعنه قال: رأيت ابن شجاع يقاطع نساجا ينسج له ثيابا في كل سنة".

محمد طارق

دارالافتاءجامعۃالرشید

06/ربیع الاول1446ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد طارق غرفی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب