85194 | خرید و فروخت کے احکام | خرید و فروخت کے جدید اور متفرق مسائل |
سوال
زید نے بکر کو 60 فٹ روڈ کا بول کر بیالیس لاکھ تیس ہزار روپے میں پلاٹ دیا،بکر کو زید پر دوستی کی وجہ سے بہت بھروسہ تھا،سب کچھ طے ہوگیا،انگر یمنٹ لکھا گیا،کچھ عرصہ بعد جب بکر اپنے پلاٹ کی خیریت دریافت کرنے گیا تو سوسائٹی والوں نے بتایاکہ آپ کا پلاٹ تو 30 فٹ روڈ پر ہے اور آپ کے پلاٹ پر 14 چودہ لاکھ روپے ڈیولپمنٹ چارجز کی مد میں بقایا ہے،چونکہ زید نے بکر کو پلاٹ دیتے وقت ڈیولپمنٹ چارجر کے بارے میں کوئی ذکر نہیں کیا،چونکہ پلاٹ میں دو قسم کی خرابیاں آگئیں،ایک تو پلاٹ 60 فٹ کے بجائے 30 فٹ روڈ پر ہے اور دوسری سودا کے ٹائم دیولیمنٹ چارجز 14 لاکھ خرابی کا کوئی ذکر نہیں ہوا تھا حالانکہ بائع کو سب کچھ پتہ تھا بائع نے صرف اپنا پلاٹ بیچنے کی چکر میں یہ سب کیا ۔ اب شریعت کی رو سےاس سودا کی کیا حیثیت ہے ؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
زید نے غلط بیانی کر کے دھوکہ دیا ہے،60 فٹ روڈ پر واقع پلاٹ کی ویلیو اور قیمت، 30 فٹ روڈ کے مقابلے میں زیادہ ہوتی ہے،لہذا 30فٹ روڈ پر پلاٹ کی فراہمی دھوکہ دہی کے ساتھ ساتھ تاجروں کے عرف میں قیمت کی کمی کا سبب بھی ہے،نیز ڈیولپمنٹ چارجز ادا کرنے کی وجہ سے گھر کے منافع معطل ہو جاتے ہیں،اس لیے خریدنے والے کے پاس اس معاملے کو ختم کرنے کا اختیار ہے۔
حوالہ جات
درر الحکام شرح مجلۃ الاحکام(1/344):
إذا اشترى عرصة على أن ضريبة الأملاك التي تأخذها الحكومة عنها مائة قرش فظهر أن ضريبتها أكثر من ذلك فإذا عد ذلك عيبا عند التجار فللمشتري ردها بخيار العيب.ثالثا: إذا اشترى عقارا على كونه لا ضريبة عليه فظهر بعد الشراء أن عليه ضريبة فللمشتري الخيار بين أن يأخذه مع ضريبته بجميع الثمن المسمى وبين أن يرده
سید نوید اللہ
دارالافتاء،جامعۃ الرشید
26/ ربیع الثانی 1446ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | سید نوید اللہ | مفتیان | سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب |